منٹو بارے سُوچنا

ہفتہ 1 اگست 2015

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

کچھ دنوں سے میں لاہور میں سعادت حسن منٹو کو تلاش کر رہا ہوں ، منٹو ملے نہ ہی منٹو کا لاہور ، منٹو پارک بھی نہیں ملا ،وہاں لاریاں ملیں، مگر لاریاں تو تھیں ،سواریاں نہیں تھیں، سواریاں تو کچھ فاصلے پر تھیں ، وہ بھی سواریاں کم بھیڑ بکریاں زیادہ معلوم ہورہی تھیں ، انہیں ایک طرف وقت اور دوسری جانب بسوں کے کلینر اور ان سے زیادہ ملزموں سے زیادہ مال نکالنے کیلئے تھانوں میں استعمال ہونے والے’ لتر‘ جیسی شکل والا لوہے کا ایک گونگا آلہ پکڑے شخص کی صرف پوٹلیاں دیکھ کر منہ سے اگلتی آواز انہیں بکریوں سے بھی زیادہ مرغیاں بناتے نظر آئی ، یہاں چھوٹے بچوں کا تو کوئی حال ہی نہیں ، ایک طرف ماں کھینچ رہی ہے دوسری جانب باپ کوس رہا ہے تو تیسری سمت میں انہیں کلینر دھکیل رہا ، ماں نے اپنا دامن بھی بچانا ، بچوں کی بھی فکر ہے اور شوہر کی ڈانٹ کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے ،بوڑھے تو پھٹے فٹ بال کی مانند دکھائی دیے ،کچھ دیر رک کر دیکھا تو دیکھا نہ گیا ، بولا بھی نہیں گیا ،یہاں ایسی’ گستاخی‘ تو کالی وردی میں بھی ممکن نہیں، ہاں اگر بندوق بردار ساتھ ہوں تو ممکن ہے کچھ دیر کسی کو مجال نہ ہو لیکن کتنی دیر یہاں تو ”جیہڑا بھنو اوہو ای لال“ اسلحہ تو یہاں رہنے ، پھرنے اور راج کرنے والوں کی مالا ہے ، میں نے اةدھر دیکھنا ترک کردیا اور پھر سوچا منٹو کہاں ہوگا ؟ خیال آیا ممکن ہے کسی لاری کی اوٹ میں چھپا بیٹھا ہو؟ لیکن جو منٹو وہاں تھے وہ سارے کے سارے ہی منٹو تھے لیکن ان میں وہ منٹو نہیں تھا جس کے ہاتھ میں کسی نے چرس کا سگریٹ دیکھا ہو ، یہاں تو سب کے سب” دم مارنے “والے منٹو تھے ، یہ منٹو اس لئے تھے کہ جو جس جگہ’ قابض ‘ ہے اس کا وہی نام ہے ،اگر کوئی جج ہے تو اس کا نام عدلیہ ہے ، کوئی پتواری ہے تو وہ اپنے علاقے کی ہر ارضی سرگرمی اور اختیار میں سیاہ و سفید کا مالک اور پورا محکمہ مال ہے ، کوئی سنتری ہے تو وہی تھانہ ہے ،کسی کے ہاتھ میں قلم کیمرہ ہے( ادراک نہیں ) تو وہی معاشرے کی اصل تصویر اور صحافت کا ’مامے خاں ‘ ہے ، میں نے یہ سارے منٹو ان لاریوں کے ٹائروں میں چھوڑے اور گراﺅنڈ میں گھس بیٹھا ۔

(جاری ہے)

دیر تک سوچتا رہا کہ منٹو نے زندگی میں کتنی بازیاں کی ہونگی ، وہ معاشرے کا عکاس تھا یا الفاظ کا رنگ باز؟ اس نے کبھی پتنگ بازی کی بھی ہوگی یا نہیں ´ اگر نہیں تو پھر اس کی یاد میں اس منٹو پارک کو گُدی بازوں کا سٹیڈیم کیوں بنایا گیا ؟ لیکن یہاں تو گڈی بھی نہیں ،گڈہی باز بھی نہیں، لگتا ہے وہ منٹو کی روح سے ڈر کر کہیں بھاگ گئے ؟ جب منٹو یہاں نہیں تو تو اس کی روح ہی ہوگی ، کسی پوچھ لیا ہوگا ”اوئے وہیلے وارو کوئی کم کاج نئیں ؟“ تو وہ بھاگ نکلے ہونگے ؟ اس پہلے کہ مجھے بھی پوچھ لے’ ماما ‘ جب میں کسی کو ملتا ہی نہیں ، نصاب ، میں کتاب میں ، یاد میں ،اخبار میں اور اشتہار میں تو مجھے تو کیسے ڈھوندنے نکل پرا ؟ تو جاہلِ مطلق ہے بھلا تجھے کیسے ملوں گا ، مجھ تک تو اب اہلِ علم کو بھی رسائی نہیں ۔

۔۔۔تب مجھے یہاں کچھ کھسر پھسر سنائی دی تو مجھے منٹو کا ’ٹھنڈا گوشت‘ سامنے نظر آیا اور میں بے ساختہ بول پڑا منٹو۔۔منٹو ۔۔۔۔ تب کھسر پھسر کرنے والے میری جانب لپکے ،سمجھے میں نے ان کے’ گوشت‘ میں شائد’کیڑے ‘ دیکھ لئے ہیں ، اس سے پہلے کہ وہ مجھ تک پہنچتے ، میں سڑک پار گیا م منٹو اور منٹو کی روح کا پتہ نہیں ، کوئی خبر لائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :