کشمیریوں پر جبر

بدھ 12 فروری 2020

Muhammad Nawaz Tahir

محمد نواز طاہر

بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں انسانی زندگی جس صورتحال سے دوچار ہے ، اسے عالمی ذرائع ابلاغ درندگی اور بربریت سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر والوں کا کہنا ہے کہ وہ جنت نظیر وادی کو بھارت کی مودی سرکاری کی طرف سے بنائی ہوئی جہنم میں اپنی زندگیوں سے کھیل کر مستقبل کی حیات کے لئے کوشاں ہیں ، انہیں جدوجہد ورثے میں ملی ہے،قربانیاں ان کے خون میں شامل ہیں اور صبر و استقلال گھٹی میں ملا ہے جو ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتا اور ہماری شناخت جہاں مصائب و جبر برداشت کرنے والی مظلوم ترین قوم کے طور پر ہے وہیں ہمیں بارود کا سینوں سے مقابلہ کرنے والے بہادروں کے طور پر جانا جاتا ہے ۔


 مقبوضہ کشمیر میں حق کی بات کرنے والوں پر پہلے روز سے عرصہ حیات تنگ کیا گیا لیکن جب سے بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کرنے والوں کو طاقت کے بل پر خاموش کروانے کی کوششیں شروع کی ہیں ، بھارتی حکومت نے کشمیریوں کا جینا مشکل سے مشکل تر کیا ہے اور سیکولر سٹیٹ کا دعویٰ کرنے والے بھارت میں انتہا پسندوں کا ووٹ لے کر وزیراعظم بننے والے شری نریندرا مودی کی سرکار نے کشمیر میں بارود کے ساتھ ساتھ پارلیمانی طاقت بھی بندوق جیساستعمال کیاہے اس سے خود بھارتی پارلیمنٹیرینز خود کو گھائل قراردیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک زخمی ہندوستان میں چُور چُور ہوگئے ہیں ، ایک مضبوط سیکولر موقف رکھنے اور اس کا کھل کراظہار کرنے کے باوجود اپنی نظروں میںخود کو پہنچانتے ہوئے ندامت محسوس کرتے ہیں اور یہ سب ہٹ دھرم نریندرامودی کی وجہ سے ہے، ان سیاسی رہنماﺅں کے ساتھ ساتھ سماجی رہنماﺅں کے جذبات بھی مختلف نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں شہرت کے امتیازی ،ناقابلِ قبول قانون پرطلبا نے جس ردِ عمل کا اظہار کیا وہ مودی سرکار کی سمت درست کرنے کیلئے بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے مگر حالات کو سمجھ کر ان سے رہنمائی لینے کے بجائے مودی سرکار ہٹ دھرمی پر ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہے بلکہ اس غصے کا اظہار بھی نہتے اور یرغمال کشمیریوں پر مظالم بڑھا کر کیا جاتا ہے ۔
 نریندرا مودی نے اپنے آئین میں جس انداز سے پارلیمانی شب خون مارکر تبدیلی ہے اور کشمیریوں پر قبضہ کیا ہے یہ بھارتی فلموں کے ڈان اور مافیا کا ہی کوئی فلمی منظر دکھائی دیتا ہے کہ پلک جھپکتے میں ایک پورے خطے کے عوام کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے ،اس کی بھارتی پارلیمانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ، اس طرح کشمیر پر قبضے اور بھارتی شہریت کا امتیازی اور متنازع قانون بنا کر پورے ہندوستان کو آگ میں جھونک دیا گیاہے ۔


 مقبوضہ کشمیر ، بھارت میں مودی سرکار کے اقدامات اور ان پر بھارت کے پراگریسو اور باشعور عوام کے ردِ عمل سے سنہ انیس سو ستاون کی میں برصغیر کے عوام پر قابض فرنگی حاکموں کی مزاحمت (نافرمانی) یاد آتی ہے جسے ہندوستان کے عوام رنگ ، نسل ، مذہب ، عقیدے اور ذات پات کی تفریق کے بغیر یکساں طور پرایک مشترکہ جدوجہد اور جنگِ آزادی قراردیتے ہیں۔

تاریخ واضح کرتی ہے کہ اٹھارہ سوستاون کی اس جنگِ آزادی کے بعد برطانوی حاکموں کی نیندیں اُڑ گئیں اور انہیںاس خطے سے نکلنا پڑا جبکہ خطہ ایک سے زائد حصوںمیں تقسیم ہوا ، اب پھر ویسے ہی حالات ہیںجومضبوط بھارت کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔ دوننوں ملکوں میں کشیدہ بد ترین حالات اور تحفظات کے باوجود ابھی بھی پاکستانیوں اور بھارتیوں کا میں’ برِ صغیری ‘ رشتہ بڑی مضبوطی سے قائم ہے جو اوورسیز پاکستانیوں اور بھارتیوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے جس کا سرکار ادراک نہیں رکھتی اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شری نریندرا مودی نے شائداوورسیز انڈین کی حیثیت سے زندگی کے کوئی پل نہیں بیتائے ، ان کے سینے میں محبت ، شفقت اور چاہت کی رگیں نہیں پھڑکتیں بلکہ نفرتی دھڑکن کے سہارے زندہ ہیں اور نفرت پھیلا کروہ خود کو توانائی دیتے ہیں، حالانکہ انسان دوست ، عاشق لوگ پیار ،محبت اور امن بھائی چارے کی گفتگو سے ذہنی اور جسمانی آسودگی
 حاصل کرتے ہیں اور پورے سماج کو توانائی دیتے ہیں ۔

مودی کا نفرت بڑھا کر توانائی حاصل کرنے کا یہ ذریعہ بھارت کے ٹوٹنے کے خدشات کو بڑھا رہا ہے ، اس پر باشعور ہندوستانیوں ہی کو تشویش نہیں پڑوسی بھی حیران اور پریشان ہیں کہ ایک ہمسایہ اپنے گھر کو کس طرح آگ لگا رہا ہے اور خاص طور پر ایسے پڑوسی جو اس سے قبل گھر کے پرانے مالکان یا کرائے داروں سے اچھے تعلقات اور دیواریں مضبوط کرنے کی خواہش کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہوں ، چھوٹے بڑے تنازعات بھی باہم مل بیٹھ کر حل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہوں کہ اسی دوران اچانک ہی میٹھے پانی کے اس کنویں میں ایک کھلنڈر ا ، ہمسایہ زہر ڈال دے، اور دونوں اطراف بسنے والوں کو مجبور بھی کرے کہ وہ اسے میٹھا پانی قرار بھی دیں اور پی کر م ہلاک بھی ہوجائیں، ان حالات میں ہمسایہ یہ سوال تو فطری طور پر اٹھائے گا کہ اس قتلِ عام کا سودا کس کے ساتھ کیا گیا ہے ؟ بھارتی مافیا کی زبان میں ’سپاری‘ کس سے لی گئی ہے ، یہ سوال دونوں اطراف سے اٹھایا جارہا ہے کہ شری نریندرا مودی بھارت کو ٹُکڑے کرنے پر کیوں تُل گئے ہیں جبکہ وہ مختلف ریاستوں میں آزادی کی خواہش رکھنے والوں کا آئینی مطالبہ کرنے والوں کی بات سن کر جائز طریقے سے انہیں ان کا حق دینے کو تیار نہیں۔

۔ بس ’ہندواتا‘ ہی دیکھنا چاہتے ہیں جہاں صرف انتہا پسند ہی رہ سکےں، جس بنیاد پر ہندوستان کو پہلے تقسیم کیا گیا تھا ، اب انتہا پسند اور سیکولر بھارت الگ الگ ہو، یعنی نریندرا مودی آزادی پسندوں کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ، سیکولر بھارت بھی برقرار نہیں رہنے دینا چاہتے ، سبھی کو انتہا پسند بنانا چاہتے تو اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ آئنی و قانونی تقسیم کی بجائے بھارت کو توڑنے کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں تاکہ ٹوٹنے کے بعد بچا کچھا بھارت اپنے پاﺅں پر کھڑا ہی نہ ہوسکے ، بھارت میں مظاہرین کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے ، لگ رہا ہے کہ بھارتی عوام اپنے وزیراعظم شری نریندرا مودی کی سازش بے نقاب کرنے کے لئے کسی بڑے تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ بھی کریں گے ۔


 مقبوضہ کشمیر میں نہتے انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر پاکستان سمیت پوری دنیا میں افسوس کا اظہار کیا جارہا ، تشویش کی لہر ہے اور بھارتی سرکار کی مذمت کی جارہی ہے لیکن توجہ طلب امر یہ ہے کہ عالمی ضمیر بھارت کے وزیراعظم کی گوشمالی کے لئے آگے نہیں بڑھ رہا ، مقبوضہ کشمیر کے نہتے انسانوں کا جبر رکوانے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہا۔

۔۔
 مقبوضہ کشمیر کے نہتے عوام پاکستان کی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں ، پاکستان ان کی سفارتی اور اخلاقی مدد کا دعویٰ کرتا ہے، بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کے حل کی بات بھی کرتا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تسلسل بھی بیان کرتا ہے ۔ بھارت کے خلاف ، کشمیریوں کی حمایت میں مظاہرے بھی کرتا ہے ،حکومت کی طرف سے دستخطی مہم بھی چلائی جاتی ہے، بھر یوں بھی ہوتا ہے کہ احتجاج اچانک سرد پڑا جاتا ہے تو ایک سوال ایسا یہاں بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان میں نریندرا مودی کتنے ہیں ؟ کون کون سا چہرہ ہے جس کو عام آدمی نریندرا مودی کا’ ماسک ‘ محسوس کرتے ہیں ؟ گلی محلے کا پاکستانی ’کشمیری‘ پوچھ رہا ہے کہ بھارت کے خلاف جاری مظاہرے بند کیوں کردیے گئے ؟ مظاہروں اور احتجاج کے عروج کے دوران اچانک ایک دھرنا آگیا جو کشمیر پر بھارت کے خلاف پورے احتجاج کو کھا گیا جبکہ اس دھرنے کے قائد کو اس قوم نے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کرکے اس کے حل کی طرف بڑھنے کے لئے ( قومی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا کر)اپنے خون کے قطرے بھی پلائے ، ان’قطروں ‘کے باوجوداچانک ہی’ پولیو کیس‘ کیسے سامنے آگیا جس سے پوری مہم ہی اپاہج ہوگئی ، پاکستان کی تمام اسمبلیوں نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے خلاف کشمیریوں کے حق میں قراردادیں منظور کیں ۔

اب بھی ملک کی سب سے بڑی اسمبلی ( آبادی کے اعتبار سے ) پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اجلاس بلانے کے لئے ریکوزیشن دیتی ہے تو اس میں مشئلہ کشمیر کو بھی ایجنڈے میں شامل کرتی ہے حالانکہ اصولوی طور پر یہ مرکزی پارلیمان کا معاملہ ہے اور پھر جب یہ کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کرلیا جاتا ہے تو اس مسئلے ساتھ ساتھ مہنگائی اور امن و امان کو جوڑ دیا جاتا ہے، کشمیر سے زیادہ مقامی ، ذاتی مسائل پر بات کی جاتی ہے اور مطالبے ترقیاتی فنڈز کے کئے جاتے ہیں ؟ سرکاری اخراجات سے دستخطی مہم کا ڈیسک قائم کیا جاتا ہے جس پراراکینِ اسمبلی سے زیادہ دیگر لوگ یعنی وہاں فرائض انجام دینے والے سرکاری ، غیر سرکاری لوگ اور ارکانِ اسمبلی کے ساتھ آنے والے زیادہ تعداد میں دستخط کرتے ہیں پھر اچانک اس ڈیسک کو پلٹ کر رکھ دیا جاتا ہے ؟ اپوزیشن کیا کرتی ہے ؟ اس پر خود سے سوال نہیں کرتی بلکہ ایوان میں حکومت سے پوچھتی ہے کہ مرکزی حکومت نے ہر
 جمعہ کے روز احتجاج کیوں بند کردیا ہے جبکہ اس کااعلان خود وزیراعظم نے کیا تھا ، اپوزیشن کو نریندرا مودی کو جاتی امراءمیں شادی میں مدعو کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے ، نوازشریف اور بھارتی خاتون دلشاد بیگم کی ٹیلی فون کالوں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور اسی میں ہی گلوکارہ طاہرہ سید کو بھی’ گھسیٹ‘ لیا جاتا ہے ۔

۔
 جب کشمیر پر سنجیدگی ایسی ہے تو پھر اسے نہتے کشمیریوں پر مظالم ، ان کی بے بسی ، آزادی کا انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی مسئلہ تو قراردیا جاسکتا ہے لیکن پاکستانی سیاسی جماعتوں کا صرف مقامی سیاسی مسئلہ بلکہ کشمیریوں کے سیاسی استحصال نہیں سمجھنا چاہئے ؟ اور عام آدمی کے اس سوال پر کیا جواب دینا چاہئے کہ پاکستان میں کتنے مودی ہیں ؟ پاکستان خود مختار کشمیر کے نعرے سے ہٹ کر اپنے سرکاری اشتہاروں میں بھی ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ کیوں دیتا ہے جبکہ عالمی سطح پر پاکستان کا موقف کشمیر کی بھارت سے آزادی اور مقبوضیہ کشمیر کے عوام کو حقِ خود ارادیت دینا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرسکیں ، موقف میں سرکاری سطح پر تبدیلی کیسے ہوئی ؟ کیا اس کا کسی نے نوٹس لینا مناسب سمجھا تو اس کا جواب نہیں میں ہے، کیا یہ ’چُپ “ کل کو سازش یا غلط فہمی یا اس سے’ کوئی بڑی’ سوچ‘نہیں کہلائے گی ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :