
قلم بردار کا قتل!
جمعہ 22 جنوری 2016

انجینئر عثمان حیدر
(جاری ہے)
میرے ملک کے حکمرانوں کو کوئی جا کر بتائے کہ صاحب! جب ماں اپنے بیٹے یا بیٹی کو گھر سے سینکڑوں میل دور یونیورسٹی میں پڑھنے کیلئے روانہ کر تی ہے توجب تک اس کا بیٹا مہینوں بعد دوبارہ چھٹیوں پر واپس نہ آ جائے اس وقت تک اسے ایک دھڑکاسا لگا رہتا ہے ۔اس سارے عرصے میں اس کیلئے اس کے بیٹے کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز معنی نہیں رکھتی۔ اور اگر اس کا بیٹا سلامت واپس نہ آئے تو اس کیلئے اس سے بڑا نقصان کوئی نہیں ہو سکتا!۔۔۔ اگر آپ کو بڑے نقصان کا تعین کرنے میں دقت ہو رہی ہے تو جائیے جا کر اس عمر رسیدہ والد سے جا کر پوچھئے جو ڈھلتی عمر میں اپنے بیٹے کی تعلیمی ضروریا ت کو پورا کرنے کیلئے دن رات اس امید پر ان تھک محنت کر تا ہے کہ ایک نہ ایک دن اس کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اس سے بہتر زندگی گزارے گا۔ اپنی اسی امید کو پورا کرنے کی خاطر وہ آپ کے”قومی خزانے“ کو سینکڑوں روپے ٹیکس دے کر اپنی آدھی سے زیادہ کمائی یونیورسٹی میں پڑھنے والے اپنے بیٹے کو بھیجتا ہے ۔ جب ایک سفاک دہشت گرد کی بندوق سے نکلی ہوئی گولی جس پر آپ کی غلط پالیسیوں کا ٹیگ لگا ہوتا ہے اس باپ کی امید کا خون کرتی ہے تو اس کیلئے دنیا جہاں کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے۔ اب بھی اگر آپ کو بڑے نقصان کا اندازہ نہیں ہوا تو جایئے کبھی کسی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لینے کی کوشش کیجئے۔ اگر داخلہ مل جائے تو پھر پی ایچ ڈی کو پورا کرنے کی کوشش کیجئے ۔ جب بیس سال کی محنت کے بعد آپ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لیں تو پھر بتایئے گا کہ بڑا نقصان کیا ہوتا ہے؟؟
ہمارا ایک قومی المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں دس پندرہ افراد کی شہادت سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ کئی عشروں سے جاری غلط ریاستی پالیسیوں کے ہیبت ناک اثرات نے ہمیں ان اندوہناک حادثوں کا عادی بنا دیا ہے۔ اب ایسے سفاکانہ حملے ہمیں معمول کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ”دیدہ زیب حکمران“ بیس افراد کی شہاد ت کو شا ید بڑا نقصان نہیں سمجھتے چاہے وہ افراد قوم کے معمار طلبا اور پی ایچ ڈی اساتذہ ہی کیوں نہ ہوں۔اگر ہم شروع سے ایک ایک فرد کی جان کو اہمیت دیتے تو شاید ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
کیا آج ہم اپنے سیکورٹی اداروں سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ٹوٹی ہوئی کمر والے یہ چار درندے میرے ملک کے مستقبل کو کیسے گھائل کرنے میں کامیاب ہوئے؟؟ بقول آپ کے اگر آپ نے تقریباََ معلومات حاصل کر لی ہیں تو کیا کارروائی عمل میں لائی گئی ہے؟؟جب سرحد پار سے اس سفاکیت کی سازش تیار کی گئی تھی تو سرحد کے اندر اسے کیسے گھسنے دیا گیا؟ ضربِ عضب کی کامیابیوں کو پائیدار بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟؟ مانا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں لیکن اس جنگ کے اسباب و سدِ باب جاننے کیلئے بنائے جانے والے اداروں کی کارکردگی کہاں ہے؟ آخر ایسی کون سی طاقتیں ہیں جن کے خلاف میرے ملک کے ہزاروں فوجی جوان جامِ شہادت نوش کرنے کے باوجود ان طاقتوں کو زیر نہیں کر سکے؟ میرے ملک کے سینکڑوں سیاستدانوں ، علماء، طلبا اور ہزاروں شہریوں کو بموں سے اڑانے کی ذمہ داری قبول کرنے والے اصل مجرم کب تختہ دار پر لٹکائے جائیں گے؟ کیا ہمارے سیکورٹی اداروں نے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیا اور کیا ان کو دور کرنے کی کوششیں کیں؟؟ آخر نیکٹا کو فعال کرنے میں کونسی طاقت رکاوٹ بن رہی ہے؟ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ ضربِ عضب کے بعد بہتر ہوتی ہوئی صورتِ حال کو اچانک کس طرح خراب کر دیا گیا؟ یہ وہ سوال ہیں جو آج ہر محبِ وطن شہری کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ
عین ممکن ہے کہ ہم لوگ بھی مارے جائیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
انجینئر عثمان حیدر کے کالمز
-
گوادر، چاہ بہار اور افغان کہانی!
اتوار 29 مئی 2016
-
این ٹی ایس: نیشنل ٹھگ سروس
ہفتہ 9 اپریل 2016
-
آداب سے عاری سماج!
جمعہ 11 مارچ 2016
-
قلم بردار کا قتل!
جمعہ 22 جنوری 2016
-
خود احتسابی
ہفتہ 2 جنوری 2016
-
معا شرتی عدم برداشت کا بڑھتا رجحان!!
منگل 18 نومبر 2014
-
ڈیم بناؤ ، ملک بچاؤ!
جمعہ 26 ستمبر 2014
-
”تیسری طاقت“
جمعرات 6 فروری 2014
انجینئر عثمان حیدر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.