
خود احتسابی
ہفتہ 2 جنوری 2016

انجینئر عثمان حیدر
(جاری ہے)
ہر فرد ہے ملت کے مقدرکا ستارہ
ا ن سب لوگوں کے شکوے کسی حد تک بجا بھی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض شکایتیں کرنے اور پاکستان کو برا بھلا کہنے کے سواہم نے ان شکایتوں کے ازالے کیلئے کیا کردار ادا کیا ہے؟؟ ہم میں سے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر ملک اور اس کے نظام پر تنقید تو کرتا ہے لیکن یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی اسی نظام کا ہی ایک جزو ہے۔ہم لوگ نظام کے باقی حصوں کا احتساب اور ان کی کارکردگی میں قابلِ ستائش بہتری کے طلب گار تو ہیں لیکن اپنے کردار کے احتساب اور اس میں بہتری کی زحمت کرنا کسی کو گوارا نہیں۔حالت تو یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی کے اوقات میں جو ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ کلینک چلاتا ہے وہی ڈاکٹر ملک میں کرپشن کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ جو انجینئر چند لاکھ روپے لے کر بلڈنگ کا غیر معیاری نقشہ منظور کر رہا ہوتا ہے وہی ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن پر تبصرے کرتا نظر آتا ہے۔ جو استاد سارا دن سکول میں بیٹھا گپیں لگاتا رہتا ہے وہی استاد ملک کے بگڑتے ہوئے تعلیمی معیار پر حکومت کو گالیاں دیتا دکھائی دیتا ہے ۔ جو جج رشوت لے کر با اثر ملزموں کے حق میں فیصلے سناتا ہے وہی اس ملک کے نظامِ عدل پر عدمِ اعتماد کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔ دودھ میں گندا پانی ملا کر بیچنے والا گوالا بھی حکمرانوں کی کرپشن پر سراپا احتجاج بنا پھرتا ہے۔ جعلی ادویات بناے والا بچوں کا قاتل بھی ملک میں ظلم و ستم کا راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے۔افسوس صد افسوس کہ آئینے میں اپنی مکروہ شکل دیکھنے کی بجائے ہم دوسروں پر تنقید کرنے میں راحت محسوس کرتے ہیں!!
آج پاکستان کے مخدوش حالات پر تنقید کرنے اوراس ملک کو چھوڑدینے کی باتیں کرنے سے پہلے کیا ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کرنے کی زحمت کی کہ آج تک ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ کیا ہم نے اس دھرتی سے کیا جانے والا عہد نبھایا؟ ہر طرف کانٹوں کا ذکرنے سے پہلے کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم نے اس وطن کی راہ میں کتنے گلاب کِھلائے ہیں؟ میں نے یا آپ نے کبھی خود پر عائد ذمہ داریوں کی بجا آوری کی فکر کی؟؟ نہیں ! ہم نے کبھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی فکر نہیں کی۔ ہم نے ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرنا آسان جانا۔ کیونکہ دوسروں پر تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین اور اپنا احتساب کرنا شاید دشوار ترین کام ہے۔ آج تقریر کے کسی بھی سٹیج پر کھڑے ہو کر مجھے سب سے آسان کا م دوسروں پر تنقید کرنا معلوم ہوتا ہے۔ اور یقیناََ میرے بارے میں دوسروں کی بھی یہی کیفیت ہو گی۔
آپ میں سے شاید کوئی بھی میری اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ اگر ہم ان سولات پر اپنا احتساب کر لیں تو ہمارے پاس اپنے وطن اور زمانے سے شکووں کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔لیکن! لیکن ہمارے لیے ایسا کرناانتہائی دشوار مرحلہ ثابت ہو گا۔ کیوں کہ ہم بس کسی میز کے گرد بیتھ کر یا کسی ٹی وی چینل کے اے سی روم میں بیٹھ کر تبصرے کرنے اور دوسروں پر تنقید کرنے میں ماہرہیں خوداحتسابی ہمیں گوارا ہی نہیں۔ یاد رکھیئے جب تک ہم خود احتسابی کے کٹھن مرحلے سے گزر کر اپنے ذاتی کردار اور خود پر عائد معاشرتی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا نہیں کرتے تب تک حالات میں بہتری کی امید لگانا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں!! کیونکہ جیسے ہمارے افراد ہوں گے ویسی ہماری قوم ہو گی اور جیسی ہماری قوم ہو گی ویسے ہی ہمارا نظام ہو گا!! تو پھر اگر کوسنا ہے تو خود کو کوسیئے نظام کو نہیں!!۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
انجینئر عثمان حیدر کے کالمز
-
گوادر، چاہ بہار اور افغان کہانی!
اتوار 29 مئی 2016
-
این ٹی ایس: نیشنل ٹھگ سروس
ہفتہ 9 اپریل 2016
-
آداب سے عاری سماج!
جمعہ 11 مارچ 2016
-
قلم بردار کا قتل!
جمعہ 22 جنوری 2016
-
خود احتسابی
ہفتہ 2 جنوری 2016
-
معا شرتی عدم برداشت کا بڑھتا رجحان!!
منگل 18 نومبر 2014
-
ڈیم بناؤ ، ملک بچاؤ!
جمعہ 26 ستمبر 2014
-
”تیسری طاقت“
جمعرات 6 فروری 2014
انجینئر عثمان حیدر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.