کورونا، آن لائن تعلیم اور اساتذہ

منگل 15 جون 2021

Muhammad Waseem Chaudhry

محمد وسیم چوہدری

گذشتہ سال کے آغاز کے ساتھ ہی پورے عالم پر کرونا وائرس کا حملہ سامنے آیا۔اس حملے نے دنیا کے نظام کو یکسر بدل ڈالا۔سب کچھ درہم برہم ہوگیا ۔ دفاتر، تعلیمی ادارے حتی کہ  کی سہولیات بھی، جو صرف کرونا کے مریضوں کے لیے مختص ہوگئیں۔ابتدا میں مرض کی نوعیت کو سمجھنے میں میں کافی دیر لگی جس کی وجہ سے جانی نقصان کا بہت بڑا خدشہ سامنے آ رہا تھا ۔


کسی دوا  یا  مجرب علاج کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے سے لاک ڈاؤن کی اصطلاح سامنے آئی جس کا مطلب ہر چیز کو بند کر دینا تھا تاکہ سماجی دوری کے ذریعے کرونا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ لاک ڈاؤن کے دوران کام کے مقام ،تعلیمی ادارےاور ہر قسم کےکاروبار و بازار وغیرہ بھی بند ہو گئے۔پاکستان میں حکومت نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے کافی حد تک لاک ڈاؤن سے اجتناب کی حکمت عملی اپنائی۔

(جاری ہے)

مگر چار و ناچار یہ فیصلہ لینا پڑا۔ جلد ہی لاک ڈاؤن کے بد اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے  حالانکہ اس سے کرونا کی صورتحال میں کافی بہتری آئی اور اس فیصلے کو واپس لے لیاگیا جس کی بڑی وجہ پاکستانی عوام کے اقتصادی حالات تھے پاکستان میں او ل تو عوام کی اکثریت کو روزگار  ک مواقع  بہت کم میسر ہیں اور جن کو دستیاب ہیں انہیں کھو دینے کے قوی امکانات تھے۔

مکمل لاک ڈاون کی صورت میں بھوک افلاس کا ایک طوفان ہمارے سامنے آجاتا اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ تو کیا گیا، مگر محدود پیمانے پر جس کو سمارٹ لاک ڈاؤن کا نام دیا گیا ۔
کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں ہیں جہاں تعلیم کے نظام  پر منفی اثرات مرتب ہوئے وہیں بہت کچھ سوچنے کی راہیں بھی کھل گئیں۔

آئیے اس صورتحال کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں
پاکستان کا نظام تعلیم بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہ پہلا سرکاری شعبہ اور دوسرا نجی شعبہ۔پاکستان میں گزشتہ سالوں کے دوران سرکاری شعبہ تعلیم میں بہت بہتری لائی گئی۔متعدد اصلاحات کے نفاذ کے ذریعے اس شعبے کے معیار کو بہتر بنایا گیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں  تربیت یافتہ اساتذہ بھرتی کیے گئے اور حتی الامکان تمام سہولیات سکولوں میں فراہم کرنے کی کاوش کی گئی۔

مگر کرو نہ کی آمد کے ساتھ ہی ہیں یہ نظام درہم برہم ہو گیا یا ناک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول بند کر دیے گئے گئے اور بچوں کو خود سے گھر میں ہی تعلیم حاصل کرنا پڑی بڑی سرکاری سطح پر اسکولوں میں انٹرنیٹ اور دیگر آئی ٹی کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری نہ ہو سکا۔دوسری جانب والدین کو بھی اتنے وسائل میسر نہ تھے کہ وہ اپنے بچوں کو آن لائن تعلیم کی جانب رواں کر سکتے۔

سکولوں کی بندش انگلش کا سلسلہ طویل ہوا تو حکومت کو مجبوری میں طلباء کو بغیر امتحان دیئے اگلی جماعتوں میں میں پروموٹ کرنا پڑا۔کیونکہ نہ تو بورڈ کے امتحانات ممکن تھے اور نہ ہی سکولوں کے۔یہ صورتحال تقریبا اسی طرح سے اب بھی جاری ہے تاہم اب حکومت نے بورڈ کی سطح پر اختیاری مضامین کے امتحانات کا فیصلہ کیا ہے۔
نظام تعلیم کا دوسرا شعبہ نجی شعبہ ہے۔

اپنی سہولت کے لیے ہم اس شعبے کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں ۔ پہلے حصے میں میں بلند معیار کے کے بھاری فیسوں والے نجی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ان تعلیمی اداروں میں آن لائن تعلیم کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں نہیں اداروں کو بھی تمام سہولیات میسر ہیں اور ان میں پڑھنے والے طالبعلم بھی بھی تمام قسم کی سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔

یو ان اداروں نے تعلیم کا سلسلہ بخوبی جاری رکھا اور طلبہ و اساتذہ کو کسی قسم کی مشکلات پیش نہ آئیں ۔
نجی شعبے کے دوسرے حصے میں میں وہ سکول  شامل ہیں ہیں جہاں جہاں متوسط طبقے کے کے بچے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ہیں جن کی فیسیں کسی حد تک مناسب ہوتی ہیں مگر یہاں سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔ ہے۔والدین کسی نہ کسی طرح اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کی فیسیں تو ادا کر دیتے ہیں ہیں مگر آن لائن تعلیم کے تقاضے پورے کرنا شاید ان کے بس کی بات نہیں فرض کیجئے کے چار بچے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں ہیں اور ہر بچے کو آن لائن کلاس لینی ہے تو والدین کو ہر بچے کے لیے ایک سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ مہیا کرنا تقریباً ناممکن ہے ہے ایسے میں اسکول انتظامیہ کی جانب سے بارہا بچوں کو آن لائن تعلیم کی طرف بلایا جاتا رہا لیکن لیکن وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ نظام کامیاب نہ ہو سکا اور اور سرکاری شعبے کی پیروی کرتے ہوئے یہاں بھی بچوں کو امتحان کے بغیر اگلی جماعتوں میں پروموٹ کر دیا گیا۔


یہاں پر پر اس صورتحال سے شدید متاثر ایک اور طبقہ کا ذکر کرنا بھی اشد ضروری ہے۔یہ طبقہ ان نجی اسکولوں کے اساتذہ کرام ہیں ۔ نہایت کم مشاہرے پر کام کرنے میں میں والے یہ اساتذہ کرام نام اپنے فرائض نہایت ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں ہیں مگر اگر لاک ڈاؤن کے عرصے میں ان کی حاضری سکولوں میں یقینی بنائی گئی اور وہ کرو نا کے شدید خطرے کی زد میں رہے۔

بعض اسکولوں نے اساتذہ کو کو اپنے وسائل سے آن لائن کلاسز لینے کے احکامات بھی جاری کیے ۔مگر آفرین ہے کہ یہ اساتذہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور بچوں کی حتی الامکان مدد کی حالانکہ کہ چند اساتذہ کو اپنی تنخواہوں میں کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس دوران حکومت کی جانب سے سے ایک خوشگوار فیصلہ کیا گیا یا جس کی رو سے سے اساتذہ کو کو فوری طور پر کرونا ویکسین لگانے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔


اس تمام تر صورتحال کے بہت سے تقاضے ہیں۔اور پالیسی کی سطح پر ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ایسی وبا یا کوئی بھی قدرتی آفات آکر ہمارے نظام تعلیم کو مکمل طور پر برباد کر سکتے ہیں ہیں یا پھر پھر ہمیں کچھ ایسے اقدامات لینا ہوں گے جس سے نظام تعلیم رواں دواں رہے۔ اس وقت پاکستان کی 40 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ کی سہولت میسرہے ہمیں  اس سہولت میں بتدریج اضافہ کرنا ہوگا  کہ آن لائن رسائی ممکن ہو سکے۔

اس سلسلے میں میں ہر ماہ اربوں کا منافع کمانے والی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں سے مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ سکولوں میں انٹرنیٹ اور آئی ٹی کے بنیادی آلات کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ہمارے اساتذہ کی تربیت آن لائن طرز تعلیم کے لیے ناکافی ہے اس سلسلے میں مناسب اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔
اپنی جانب سے بھی آن لائن تعلیم کے لئے ایک تجویز پیش کرنا چاہوں گا۔

قارئین اس سلسلے میں تعلیم کے لیے ہم مساجد کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ دیہات میں مسجد کا لاؤڈ اسپیکر ہر قسم کے اعلانات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ اسکول کے اساتذہ کرام مسجد کے سپیکر پر پر ایک پیش شدہ ٹائم ٹیبل کے تحت بچوں کو لاؤڈ سپیکر پر تعلیم دیں دی تا کہ اردگرد کے بسنے والے بچے روزانہ کے لیکچر سے مستفید ہو سکیں۔اگرچہ اس سلسلے میں متعدد رکاوٹیں حائل ہو گئی لیکن ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کا سوچ کر بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی گی تاکہ کہ کرو نا کا یہ ہوا کہ میں دنیا سے بہت پیچھے نہ لے جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :