
خطے کو لاحق خطرات
اتوار 10 جنوری 2016

محمد یونس قاسمی
(جاری ہے)
ایران سعودی تعلقات پہلے بھی کچھ خوشگوار نہ تھے، اب سعودیہ ایران سے اپنے تعلقات ختم کرچکا ہے اور دیگر خلیجی ریاستیں بھی سعودیہ کے اس فیصلے کی تقلید کررہی ہیں۔
دیکھا جائے تو ایران کا یہ جارحانہ رویہ اچانک سامنے نہیں آیا، بلکہ یہ سب کرنے کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے مناسب موقع کی تلاش جاری تھی۔سعودیہ جب بھی کسی حادثے سے دوچار ہوا،ایران نے بجائے سعودیہ کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ہمیشہ نمک پاشی کی ہے۔سانحہ منیٰ کا واقعہ ہو یا اس سے قبل کرین کا حادثہ،ایران نے پوری کوشش کرکے ان واقعات کو بین الاقوامی رنگ دیا، جو کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا۔مشرق وسطی میں ایران کے سیاسی وعسکری اثرونفوذ کو جہاں خطے کے دیگر ممالک نہایت تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہیں ایرانی عہدیداران اس پر شاداں و فرحاں ہیں۔جس کا اظہار چند دن پہلے ایرانی صدر کے مشیر علی یونسی نے ان الفاظ میں کیا ہے:”ایران ایک عظیم الشان سلطنت بن چکا ہے اور اس کا دارالحکومت بغداد ہے۔بغداد ہی ماضی اور حال میں ہماری تہذیب اور ثقافتی تشخص کی علامت ہے۔(اس میں قبل ازاسلام کی اس قدیم ایرانی شہنشاہیت کی طرف اشارہ ہے، جس میں عراق ایران کے زیر نگیں تھااور مدائن اس کے پایہ تخت کا درجہ رکھتا تھا) پورا مشرق وسطی ایران کا حصہ ہے،ہم خطے کی تمام اقوام کا دفاع کریں گے، کیونکہ ہم انہیں ایران ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ہم اسلامی انتہا پسندی، تکفیری، الحاد، نئے عثمانیوں،وہابیوں اور مغربی صیہونیوں سے بیک وقت مقابلہ کریں گے۔“(بحوالہ ایرانی نیوز ایجنسی)یہ بیان ایران کی سوچ کو واضح کرتا ہے اور ایسے بیانات کو سامنے رکھ کر جائزہ لیا جائے تو ایران کا مشرق وسطی میں مکمل کردار سامنے آجاتا ہے۔کیا یہ درست نہیں ہے کہ ایران کے عسکری دستوں کی وجہ سے سعودیہ عرب سمیت تمام خلیجی ریاستوں کو شورشوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے،پاکستان،سعودی عرب اور ترکی نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ایران کو بغاوت بھڑکانے اور خلیجی وعرب امور میں مداخلت سے باز رکھا جائے مگر ایران نے کبھی کسی کی نہیں مانی اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے ہمیشہ سرگرم رہا ہے۔
جب سے ایران میں انقلاب کے نام پر ایک مخصوص مذہبی فکر کی حکومت قائم ہوئی ہے،عالم اسلام بالخصوص پاکستان اورسعودی عرب ایران کا ہدف ہیں اورایران نے ہمیشہ انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ خود کو انصار اللہ،حزب اللہ اور ید اللہ کہلانے والوں نے عالم اسلام کے خلاف بالخصوص سعودیہ عرب کے خلاف ہمیشہ مذموم حرکات کی ہیں۔پاکستان کو ایک طرف رکھیں اورصرف سعودی مخالف ایرانی اقدامات اور بیانات کا جائزہ لے لیں تو ہماری بات کی تصدیق ہوجائے گی۔یہ ایران ہی تھا جب اس کے لوگوں نے 1980ء میں تہران میں سعودیہ اور کویت کے سفارت خانوں پر حملہ کرکے انہیں نذر آتش کردیا تھااور سعودی سفارت کار رضا النزہہ کو یرغمال بنالیا تھا۔1994ء میں سعودیہ کے مشرقی شہر الخبر میں ہونے والے دھماکے کا مرکزی ملزم احمد المغسل آج بھی ایران میں پایا جاتا ہے۔عرب بہار کے نام پر ایران نے جب بحرین میں حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع کروادی تو وہاں کی حکومت کی درخواست پر جب سعودی دفاعی فورسز بحرین میں داخل ہوئیں تو تو ایرانی سپریم لیڈر نے لوگوں کو سعودیہ پر حملہ کرنے کے لیے مذہب کے نام پر اکسایا۔ ایران خطے میں اپنی بالادستی کے لیے جس تحرک کا اظہار کررہا ہے یہ پورے خطے کے لیے نہایت خطرناک ہے۔پاکستان سمیت تمام خلیجی ریاستوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی سب سے بڑی وجہ ایران کا یہ تحرک ہے۔
نئی صورت حال میں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کردیے ہیں،جس سے مشرق وسطی میں جاری بحران نے مزید شدت اختیار کرلی ہے اور پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اس صورت حال سے دہشت گردوں کو فائدہ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے پورے عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے۔پاکستان نے ہمیشہ نازک اور مخدوش حالات میں عالم اسلام کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔اب بھی پورے عالم اسلام کی نظریں پاکستان کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ ان حالات میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرے۔ سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ،پاکستان کے قائدانہ کردار پرمکمل اعتماد کا اظہار ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران کے ساتھ کھل کر بات کی جائے اور اسے اچھا پڑوسی بن کر رہنے کے آداب سکھائے جائیں اور اسے اپنی سرحدوں میں ہی رہنے کی تہذیب سکھائی جائے۔
ایران کو یہ بات بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ آئے دن بغیر کسی شفاف عدالتی کارروائی کے ایران میں مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو جو سرِ عام پھانسیاں دی جاتی ہیں ،ان پر سب کی خاموشی صرف اس لیے ہے کہ یہ ایران کا ذاتی اور اندرونی معاملہ ہے، ورنہ سبھی دل رکھتے ہیں۔اس موقع پر مرحوم جنرل حمید گل بہت یاد آرہے ہیں، جنہوں نے اپنے دور میں پاسداران انقلاب کے دہشت گردوں کو کوئٹہ سے گرفتار کیا اور بحفاظت سی ون تھرٹی میں بٹھا کر تہران چھوڑ کر آئے،صرف اس لیے کہ ایران کو بوقت ضرورت حدوں میں رکھا جاسکے۔آج ایران سعودی تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کسی حمید گل جیسے معاملہ فہم شخص کی ضرورت ہے۔پاکستان کو ترکی کو ساتھ ملاکر اس تنازع کو حل کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر یہ آگ خدانخواستہ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد یونس قاسمی کے کالمز
-
مشترکہ فوجی مشقوں کا پیغام
منگل 15 مارچ 2016
-
خطے کو لاحق خطرات
اتوار 10 جنوری 2016
-
اسلام اور جمہوریت
منگل 27 مئی 2014
-
ملکی عدم استحکام کی وجہ اور ہمارے کرنے کا کام
جمعرات 3 اپریل 2014
-
ایرانی وزیر داخلہ کی دھمکی اور اہل سنت کا موقف
ہفتہ 22 فروری 2014
-
سعودی ولی عہد کا دورہٴ پاکستان
منگل 18 فروری 2014
-
خیرپور میں دوروز
پیر 10 فروری 2014
-
سانحہ پنڈی۔ محرکات ، اسباب اور سدباب
منگل 26 نومبر 2013
محمد یونس قاسمی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.