غیر مسلم پاکستانی بھی محب وطن پاکستانی ہیں

جمعہ 13 اکتوبر 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

مجھے کیپٹن صفدر سے اتفاق بھی ہے اور اختلاف بھی۔ بلا شبہ نبی اکرم آخری نبی ہیں ۔ اور ان کے بعد کوئی معبود نہیں۔وہ آخری نبی ہیں یہ ہمارے عقیدہ کی بنیاد ہے۔ لیکن اس ضمن میں فوج اور دیگر اداروں میں بھرتیوں اور ترقیوں کے حوالہ سے قانون سازی درست نہیں۔ جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے تو پاکستان کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی نشستیں الگ ہیں۔

اقلیتوں کے لئے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں ان کے حق نمائندگی کو محفوظ بنانے کے لئے مختص کی گئی ہیں۔ اس طرح مسلم نشستوں پر مسلمان اور اقلیتی نشستوں پر اقلیت ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ تا ہم جہاں تک دیگر شعبوں کا تعلق ہے وہاں بھرتی اور ترقی کا معیار مذہب نہیں میرٹ اور ٹیلنٹ ہے۔
#یہ درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو دوبارہ صدر بنانے کے لئے جو ترمیم کی ہے اس میں ان سے حلف نامہ کے حوالہ سے ایک غلطی ہو گئی۔

(جاری ہے)

اس غلطی پر سب سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نواز شریف سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ یہ غلطی ایک نئی ترمیم سے ٹھیک بھی کر لی گئی ہے اور اس غلطی کے ذمہ ادارن کا تعین کرنے کے لئے کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس غلطی سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک کو نقصان پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔ اس سے قبل حلقہ 120 کے انتخابات میں لبیک یا رسول اللہ کی جانب سے آٹھ ہزار ووٹ لینے نے بھی مسلم لیگ (ن) کے اندر خطرہ کی گھنٹیاں بج چکی ہیں۔


پاکستان کی سیاست کی ایک بری بات یہ بھی ہے کہ یہاں ہمیں سب کچھ حکومت چلے جانے کے بعد ہی یاد آتا ہے۔ سب اچھی باتیں حکومت چلے جانے کے بعد ہی یاد آتی ہیں۔ کیپٹن صفدر کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کی وہ اب یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ اقتدار ان کے گھر کی لونڈی رہا ہے۔ خیر اب بھی اگر سمجھا جائے تو اقتدار ان کے گھر کی لونڈی ہی ہے۔

لیکن پھر بھی کہ سکتے ہیں کہ ان کے سسر اب ناا ہل ہو گئے ہیں۔ اس لئے اب اقتدار گھر سے باہر نکل گیا ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی کیپٹن صفدر سے سوال کر سکتا ہے کہ آج وہ جس قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں انہوں نے یہ مطالبہ اپنے سسر سے کیوں نہیں کیا۔ کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ پرویز مشرف کے حوالہ سے جن خدشات کا اظہار وہ اب کر رہے ہیں کیا انہیں اس سب کا پتہ نہیں تھا جب انہیں پاکستان کا آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا۔

اقتدار کے بے رحم کھیل کو مذہب کے رنگ میں رنگنا ٹھیک نہیں۔ اپنے مخالفین کو مذہب کی تلوار سے قتل کرنا جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کیپٹن صفدر اس حوالہ سے اپنے خاندان کی سزا بھی تجویز کر دیتے۔
میں نے اپنے پہلے کالم میں بھی لکھا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو قومی اداروں سے لڑائی اجتناب کرنا چاہئے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی یہ بات پوری قوت سے کہی جا رہی ہے مگر کوئی عمل نہیں ہو رہا۔

پہلے شہباز شریف نے ایک بیان جاری کیا جس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں سے یہ مطالبہ کیا گیا وہ قومی ادروں کے حوالہ سے غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے پرہیز کریں۔ لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا ۔ا س کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کابینہ کے ارکان کو اسی قسم کی ہدائت جاری کی ہے کہ وہ قومی اداروں کے بارے میں غیر زمہ دارانہ بیان بازی سے پرہیز کریں۔

چودھری نثار علی خان بھی اسی قسم کی رائے کا مختلف انداذ میں اظہار خیال کر چکے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان میں سے کسی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں۔ پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ کیپٹن صفدر نے مذہب کی آڑ میں اب ان دونوں اداروں پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جسے بہر حال خوش آئند قرار نہیں دیا جا سکتا۔
میں حیران ہوں جب کیپٹن صفدر بار بار اپنی تقریر میں قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔

تب انہیں قائد اعظم کے پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالہ سے فرمودات یاد نہیں تھے۔ جب وہ لوگوں کے نکاح فسخ قرار دے رہے تھے تب مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ مفتی کب سے ہو گئے ہیں۔ وہ کیوں بھول گئے ہیں کہ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کے لئے ہے۔ اور ہم اپنی اقلیتوں کے لئے پاکستان میں ترقی و خوشحالی کے راستہ بند نہیں کر سکتے۔

اقلیتوں کے لئے پاکستان میں تقری اور خوشحالی کے دروازے بند نہیں کئے جا سکتے۔ ہمیں اپنے ملک میں تمام شہریوں کو میرٹ اور ٹیلنٹ کی بنیاد پر ااگے آنے کا برابر موقع دینا ہو گا۔ ایسی قانون سازی کی کون حمائت کر سکتا ہے جہاں صرف مذہب کی بنیاد پر بھرتی اور ترقی پر قد غن لگائی جائے۔ میں یہ بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ صرف مسلمان اور نبی اکرم کے آخری بنی ہونے پر یقین رکھنے والے ہی محب وطن ہیں اور جو اس پر یقین نہیں رکھتا وہ محب وطن نہیں۔

میرے نزدیک ہر پاکستان محب وطن ہے۔ پاکستانیت کا سرٹیفکیٹ مذہب کی بنیاد پر نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کی تمام اقلیتیں محب وطن ہیں۔ اور ان کی پاکستان سے محبت اور وفاداری پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنے ووٹ بنک کو مستحکم رکھنے کے لئے بھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
بے شک پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔

یہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی قائد اعظم یہاں رہنیو الی اقلیتوں کو برابر حقوق گارنٹی کئے تھے۔ اگرا علیٰ عدلیہ کی بات کی جائے تو اے آر کارنیلئس اور بھگوان داس پاکستان کے دو بڑ ے چیف جسٹس رہے ہیں جن کا تعلق اقلیتوں سے تھا۔ یہ دونوں ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔ اسی طرح پاک فوج میں بھی غیر مسلم لیفٹنٹ جنرل کے عہدہ تک پہنچے ہیں۔

ان میں احمدی اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افسر بھی شامل ہیں۔ اور انہوں نے پاکستان کے مکمل دفاع کیا ہے۔ پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔ اس ضمن میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت بھی قابل دید ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ فوج نے کھل کر اس موضوع پر اپنا موقف دیا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے یہ دو ٹوک اعلانکہ پاکستان کے لئے جانوں کا نذرانہ دینیو الے غیر مسلم شہدا پر ہم سب کو فخر ہے۔

وہ پاکستان کے بیٹے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کے لئے جان دی۔مجھے خوشی ہے کہ پاک فوج نے اس کی بت وقت وضاحت کر دی ہے۔
میں پریشان ہوں کہ اگر پاکستان کی اقلیتوں نے یہ سوال کر دیا کہ ستر سال کا حساب کر لیں کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں میں زیادہ شرح مسلمانوں کی ہے یا غیر مسلموں کی ہے۔ قرضے کس نے زیادہ ہڑپ کئے ہیں۔ کرپشن میں سر فہرست کون ہے۔

سرکاری زمین پر قبضہ کرنے والوں میں سر فہرست کون ہے۔ ایک دوسرے کے حقوق سلب کرنے والوں میں آگے کون ہے۔ غرض کے شراب نوشی میں آگے کون ہے۔ اس لئے ہمیں پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر پر اچھے اور برے کا فیصلہ کرنے کی روائت نہیں ڈالنی چاہئے۔ بلکہ اچھائی اور برائی کا فیصلہ اچھائی اور برائی کے معیار پر ہی ہونا چاہئے۔ کیا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف مسلمان اچھے پاکستانی ہیں اور غیر مسلمان اچھے پاکستانی نہیں ہیں۔ کیا صرف مسلمان محب وطن پاکستانی ہیں اور غیر مسلم محب وطن نہیں ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت خاموش ہے۔ اسے بولنا چاہئے۔ یہ پاکستان کی بات ہے۔ سیاسی مفادات کی وجہ سے خاموشی بھی جرم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :