
شاہد خاقان عباسی کے نئے اہداف اور مشکلات
بدھ 11 اکتوبر 2017

مزمل سہروردی
ایک طرف وہ یہ سمجھتے ہیں کہ احسن اقبال نے ریڈ لائن عبور کی ہے جو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ دوسری طرف وہ نواز شریف کو ہی حقیقی وزیر اعظم کہتے نہیں تھکتے۔ لیکن ساتھ ساتھ ڈمی وزیر اعظم بننے کو بھی تیار نہیں۔ ان کا عوامی اجتماعات سے خطاب ظاہر کر ہا ہے کہ وہ اپنی سیاسی اننگ کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں۔
ان کی کوشش ہے کہ وہ بلا شرکت غیر ن لیگ میں نواز شریف کے متبادل بن جائیں۔
(جاری ہے)
وہ نواز شریف کا اعتماد بھی نہیں کھونا چاہتے اور ان کا اعتماد بھی جیتنے کے خواہاں ہیں جنہوں نے نواز شریف کو نکالا ہے۔
وہ نواز شریف کو یہ بھی یہ یقین دلا رہے ہیں کہ وہ ان کے مقاصد پورے کریں گے اور دوسری طرف نواز شریف کو نکالنے والوں کو بھی یقین دلا رہے ہیں کہ وہ ان کے مقاصد بھی پورے کریں گے۔شاہد خاقان عباسی کے لیے یہ وزارت عظمیٰ کوئی آسان کیک نہیں ہے۔ ان کی کابینہ بھی سیاسی طور پر ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی کابینہ کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ خود انھیں شاہد خاقان عباسی کی جگہ ہونا چاہیے تھا۔ اس میں ایک نہیں کئی نام شامل ہیں۔ خواجہ آصف، احسن اقبال کے نام تو سر فہرست ہیں لیکن باقی بھی سمجھتے ہیں کہ انھوں نے بھی چانس مس کیا ہے۔ وہ بھی وزیر اعظم بن سکتے تھے۔ اس لیے وہ اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ شاہد خاقان سے ایسی غلطی ہو جائے کے وزیر اعظم کی تبدیلی کی بات بن جائے۔ دوست تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ سب پچھتا رہے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے نام پر اتفاق اس لیے ہوا تھا کہ وزیر اعظم صرف 45 دن کے لیے بنایا جا رہا تھا بعد میں شہباز شریف نے وزیر اعظم بن جانا تھا۔ اس لیے اتنے کم دنوں کے لیے بڑے بڑ ے نام تیار نہیں تھے۔ کس کو پتہ تھا کہ بعد میں شہباز شریف انکار کر دیں گے اور 45 دنوں کے لیے وزیر اعظم بننے والے شاہد خاقان عباسی کی لاٹری نکل آئے گی۔ انھیں ایک مکمل اننگ کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ جس کو اب وہ بھر پور انجوائے کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا شاہد خاقان کی نظر صرف اس ایک اننگ پر ہے۔ مجھے ایسا نہیں لگتا بلکہ ان کا انداز بتا رہا ہے کہ وہ ایسے سگنل دے رہے ہیں کہ ان کی نظر 2018ء سے آگے بھی ہے۔ وہ اگلے انتخاب کے بعد بھی خود کو وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں۔ سب کو نظر آ رہا ہے کہ ابھی نواز شریف اور مریم نواز 2018ء کی گیم سے آؤٹ ہیں۔ اس لیے اگر ن لیگ اگلا انتخاب بھی جیت جاتی ہے تو اسے پھر اپنی پارٹی سے ہی وزیر اعظم چننا ہو گا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شاہد خاقان عباسی نے اس کی تیاری شروع کر دی ہے۔
ابھی تک اس ضمن میں ان کا مقابلہ شہباز شریف سے ہے۔ لیکن آج کے اس کالم میں شہباز شریف پر بات نہیں ہو گی بلکہ ہم شاہد خاقان پر بات کر رہے ہیں۔ اس لیے فوکس شاہد خاقان پر ہی رکھتے ہیں۔ شاہد خاقان ایک سوچی سمجھی سوچ کے ساتھ خود کو اگلے وزیر اعظم کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ اس لیے انھوں نے عوامی اجتماعات پر کام شروع کر دیا ہے۔ وہ بطور ایک عوامی وزیر اعظم بھی سامنے آ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے بارے میں ابتدائی تاثر یہی تھا کہ وہ ایک انتظامی وزیر اعظم ہو نگے۔ وہ فائل پڑھتے ہیں۔ فائل پڑھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ لمبی لمبی میٹنگز کرنے کی عادت اور بیورو کریسی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا انداز۔ تا ہم وہ بدل رہے ہیں۔ شاید ان کے اہداف بدل گئے ہیں۔
وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ایک بہترین چوائس ہیں۔ جو سسٹم کو چلا سکتا ہے۔ وہ ان کے لیے مسائل بھی نہیں پیدا کرے گا۔ اس کو ریڈ لائن کا بھی پتہ ہے۔ وہ نہ تو میر ظفر اللہ جمالی ہیں نہ ہی یوسف رضا گیلانی ہیں اور نہ ہی راجہ پرویز اشرف۔ وہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی نمایندگی کر سکتے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں امریکا کے دورہ میں ٹھیک پرفارم کیا ہے۔
امریکی نائب صدر سے ملاقات کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے پسند کیا ہے۔ حالانکہ وہ ایک مشکل ملاقات تھی۔ شاید اسی وجہ سے جب وہ وزیر اعظم بنے تھے تو ایک فضا تھی کہ وہ ایل این جی کے مقدمہ میں پھنس جائیں گے۔ انھیں ایل این جی وزیر اعظم کا خطاب دیا گیا۔ پی ٹی آئی کا فوکس بھی ان پر تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پانامہ کے بعد ملک کا بڑا مسئلہ ایل این جی ہو گا۔ تا ہم یہ ماننا ہو گا کہ شاہد خاقان نے کمال کامیابی سے اپنے اوپر سے خطرات کے بادل غائب کیے ہیں۔
شاہد خاقان کے لیے سب سے بڑا خطرہ چوہدری نثار علی خان تھے لیکن انھوں نے خود کو ازخود اس گیم سے باہر کر لیا ہے۔ شاید اب چوہدری نثار علی خان اسٹیبلشمنٹ کی گیم میں بھی نہیں ہیں۔ انھوں نے بہت جلد اپنے آپ کو گیم سے آؤٹ کر لیا ہے۔ خواجہ آصف تو پہلے بھی متنازعہ تھے لیکن اپنے حالیہ دورہ امریکا میں انھوں نے اپنے آپ کو مزید متنازعہ بنا لیا ہے۔ وہ شاید بات ٹھیک کر رہے تھے لیکن موقع ٹھیک نہیں تھا۔ اس لیے وہ بھی گیم میں نظر نہیں آ رہے۔ احسن اقبال گیم میں تھے۔ وہ ایک شاندار چوائس تھے۔ وہ شاہد خاقان کے لیے مسلسل خطرہ کی گھنٹی تھے۔
سی پیک پر ان کی گرفت ان کا مضبوط پوائنٹ تھا۔ وہ کسی بھی وقت شاہد خاقان کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایک نقطہ نے محرم سے مجرم بنا دیا والی بات احسن اقبال کی ایک غلطی نے انھیں گیم میں آگے سے پیچھے کر دیا ہے۔ تاہم جس طرح کہتے ہیں کہ عشق میں امتحاں اور بھی ہیں، اسی طرح شاہد خاقان ایک پل صراط پر چل رہے ہیں۔ ان کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ انھوں نے چند ماہ میں بہت سے مد قابل کو آؤٹ کیا ہے۔ لیکن ابھی ان کے سامنے بہت سے پہاڑ کھڑے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مزمل سہروردی کے کالمز
-
اگر ’’وہاں‘‘ شہباز شریف ہوتے؟
بدھ 15 نومبر 2017
-
سیاسی جماعتوں میں آمریت بھی ختم کریں
ہفتہ 11 نومبر 2017
-
دوستو: سسٹم کو چلانے میں ہی ملک کی بہتری ہے
منگل 24 اکتوبر 2017
-
حمزہ شہباز جن بوتل سے باہر لے آئے
جمعہ 20 اکتوبر 2017
-
سیاست کی کہانی اور شہباز شریف کہاں کھڑا ہے
بدھ 18 اکتوبر 2017
-
یہ عدم استحکام زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا
اتوار 15 اکتوبر 2017
-
غیر مسلم پاکستانی بھی محب وطن پاکستانی ہیں
جمعہ 13 اکتوبر 2017
-
شاہد خاقان عباسی کے نئے اہداف اور مشکلات
بدھ 11 اکتوبر 2017
مزمل سہروردی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.