
ہم بھول چکے
جمعہ 28 نومبر 2014

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
پتہ نہیں یہ کِس قسم کے لوگ ہیں کہ جن کی فصیلِ فہم سے کوئی منادی ،کوئی صدا ،کوئی آواز ٹکراتی ہی نہیں ۔
دِلوں پہ مہریں لگ چکیں ،کان بہرے اور آنکھوں پر پردے پڑ چکے ۔چلیں ہماری نہ سنیں ،تاریخ کا مطالعہ ہی کر لیں ،مشرکینِ مکہ کا حال ہی جان لیں تاکہ فیصلہ تو ہوسکے کہ امان کِس نظام میں ہے۔ فسق وفجور میں ڈوبے ،بچیوں کو زندہ دفن کرتے ،مٹکوں میں شراب پیتے ،معمولی باتوں پر قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ،غلاموں پر بے پناہ تشدد کرکے قہقہے لگاتے مشرکینِ مکّہ ۔پھر نور کی کرنیں پھوٹیں ،آقاﷺ تشریف لائے ،اللہ کا آئین اُترا ،اسلام پھیلا اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب زیور سے لدی پھندی ایک عورت تنہا مکّہ سے مدینہ تک سفر کرتی ہے اور راستے میں کوئی چور ،ڈاکو نہ لُٹیرا۔ذرا آج کے معاشرے کا قبل از اسلام کے مشرکین سے موازنہ تو کیجئے ،آپ کوجدیدیت کالبادہ اوڑھنے والی، اپنی ترقی پہ نازاں یہ دُنیااپنے اعمال وافعال میں اُن وحشی قبائل سے کہیں آگے نظر آئے گی ۔کونسا گناہ ہے جو اِس معاشرے میں پنپ نہیں رہا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا انسان ارتقائی منازل طے کر رہاہے یا پھر پتھر کے زمانے میں لوٹ رہاہے؟۔ رجعت پسند کون ہے ؟۔ہم یا وہ جو لبرل ازم کی آڑ میں ہر برائی کے حق میں دلائل تراش لیتے ہیں ۔آئین کی اسلامی شقوں پر ناک بھوں چڑھانے والے اور آرٹیکل 62/63 پر ضیاء الحق مرحوم کو کوسنے والے ،سیکولر نظریات کے حامل اگر اِن آرٹیکلز سے لفظ ”اسلامی“نکال کر دُنیا کے دساتیر سے موازنہ کرکے دیکھیں تو سرِمو فرق بھی نظر نہیں آئے گا ،البتہ یہ فرق ضرور کہ اگر عالمی برادری کا کوئی فرد اِن ضابطوں پر عمل نہیں کرتا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندہٴ درگاہ ہوجاتا ہے جبکہ ہم نے اپنی اسمبلیاں ایسے ہی لوگوں سے بھر لیں اور اب کہتے ہیں کہ مجبوری ہے ،اگر 62/63پر عمل کردیا گیا تو اسمبلیوں میں اُلّو بولنے لگیں گے ۔یہی باتیں جب امیرِ جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے مینارِپاکستان کے سبزہ زار میں سجائے گئے اجتماعِ عام میں کہیں تو مجھے خلفائے راشدین کادَور یاد آنے لگا ۔جماعتِ اسلامی سے میرا ناطہ اُس وقت سے ہے جب میں محض ایک سٹوڈنٹ تھی ۔تَب سے اب تک یہ جاننے کے باوجود کہ اقتدار کے ایوان ابھی جماعت سے دُور ،بہت دور ہیں کیونکہ جماعت اسلامی کی ساری توجہ شہروں پر مرکوز ہے جبکہ 70 فیصد ووٹر دیہاتوں میں رہتے ہیں جہاں جماعت کا ”وَرک “نہ ہونے کے برابر ہے اور موجودہ جمہوری نظام میں کوئی بھی جماعت اُتنی دیر تک اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اُس کا اثرورسوخ دیہاتوں میں نہ ہو۔یہ سب کچھ جاننے کے باوجود میرے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی کیونکہ اپنا تو عقیدہ بقولِ اقبالیہ ہے کہ
پیوسطہ رہ شجر سے ،اُمیدِ بہار رکھ
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.