
کچھ تو خیال کریں
ہفتہ 18 جون 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
سوال یہ ہے کہ ہم جمہوری اقدار کی حفاظت کی بجائے ذاتیات پر کیوں اترتے جا رہے ہیں؟ ہمارے صبروتحمل کی حدیں کیوں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور ہم یہ سوچنے کے لیے کیوں تیار نہیں کہ پاکستان کو چاروں طرف سے مشکلات میں گھیرنے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔ امریکہ اور بھارت کی شر اور خباثت سے طورخم بارڈر پر افغان فورسز نے حملہ کرکے میجرجوادچنگیزی کو شہید کر دیا اور تاحال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اشعال انگیزی کے انتہا تھی جس کے بارے میں وزیردفاع خواجہ آصف نے دوٹوک کہا کہ میجرجواد کی شہادت کا بدلہ لیا جائے گا۔ ہمارا افغانستان سے کوئی جھگڑا نہیں بلکہ ہم تو گزشتہ 34 سالوں سے 30 لاکھ افغانیوں کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہیں۔ طورخم بارڈر پر بننے والی پوسٹ بھی باہم افہام و تفہیم سے بن رہی تھی اور 22/20 دنوں تک یہ پوسٹ تعمیر بھی ہوتی رہی لیکن پھر اچانک افغان سکیورٹی فورسز نے حملہ کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شہ کے بغیر افغانستان ایسا قدم اٹھا سکتا تھا؟ کیا افغان فوج جس کے 15 فی صد فوجی بھاگ چکے اور 15 فی صد کسی بھی وقت بھاگنے کو تیار بیٹھے ہیں، کسی بھی صورت میں پاک فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں سمجھ لینا چایے کہ یہ سب ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے اور اس ایجنڈے کے مرتبین امریکہ اور بھارت ہیں جنھیں اقتصادی راہداری کسی صورت ہضم نہیں ہو رہی اور اب ان کی بھرپور کوشش ہے کہ ہمارے پڑوسی افغانستان اور ایران کو پاکستان کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اپنے اس مقصد میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں۔ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر ایران افغانستان اور بھارت کا سہ فریقی معاہدہ ہو چکا جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کتنی تیزی سے خطے میں اپنے قدم جماتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف جمہوری قوتوں کا یہ عالم کہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ زبان کی شائستگی قصہٴ پارینہ بن چکی اور تحمل، تدبروبرداشت کا مادہ ختم ہو چکا۔ ایک ٹی وی چینل پر جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر حافظ حمداللہ اور ماروی سرمد کے جھگڑے کا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا۔ حافظ صاحب سے سوال ہے کہ کیا اسلام ہمیں یہی کچھ سکھاتا ہے جو آپ نے ایک خاتون کے ساتھ کیا؟ کیا اسلام کسی کو بولنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق نہیں دیتا؟ ماروی سرمد نے جو کچھ کہا، اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور شاید ہمیں بھی اختلاف ہو لیکن اس اختلاف کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ طیش میں آ کر غلیظ گالیاں دی جائیں اور پیٹنے کی کوشش کی جائے؟ ہمیں تو حیرت ہے مولانا فضل الرحمن پر جنھوں نے اپنے سینیٹر کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ رہی نیوزچینل کی بات، تو اس جگ ہنسائی کے جرم میں وہ بھی برابر کا شریک ہے۔ یہ پروگرام لائیو نہیں پہلے سے ریکارڈشدہ تھا۔ اس لیے اوّل تو اسے ”آن ایئر“ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا لیکن اگر کیا بھی جاتا تو وہ سارے حصے حذف کر دیے جاتے جن کو دیکھ کر ہر غیرت مند پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا اور پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ لیکن چینل مالکان کو تو ریٹنگ درکار تھی اسی لیے سب کچھ ایسے ہی دکھا دیا گیا جیسے ”لائیو“ پروگرام ہو۔ اب دیکھیں پیمرا اس پر ایکشن لیتا ہے یا نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.