
اِن حالات میں احتساب ممکن نہیں
منگل 28 جون 2016

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
تحریک انصاف نے کرپشن کے الزامات لگا کر الیکشن کمیشن میں وزیراعظم کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے اور کپتان صاحب کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن سے انصاف نہ ملا تو وہ سپریم کورٹ جائیں گے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو نوازلیگ کے لیے مرغوب ترین اور پسندیدہ ترین ہے کیونکہ اس کے پاس
وکلاء کی ایسی ٹیم موجود ہے جو بڑی آسانی سے چکر چلا کر 2 سال تو نکال ہی سکتی ہے۔ ویسے بھی کیا تحریک انصاف کو نہیں پتہ تھا کہ الیکشن کمیشن تو نامکمل ہے اور اس کی تکمیل میں ابھی پتہ نہیں کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ جب الیکشن کمیشن مکمل ہو گا تبھی وزیراعظم کے خلاف ریفرنس کی کارروائی شروع کی جا سکے گی تو پھر تحریک انصاف نے ریفرنس دائر کر کے کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے؟ ادھر ہمارے نظام انصاف کا یہ عالم ہے کہ کینسر کے فیصلوں کا انتظار کرتے کرتے انسان بوڑھا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تو انصاف کے کل پرزوں کی کارکردگی دیکھ کر ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد کی انسدادِدہشت گردی کورٹ میں تھانہ سیکرٹریٹ کے ایڈیشنل ایس ایچ او نے جو تعمیلی رپورٹ جمع کروائی وہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروانے کے قابل تھی۔ 2014ء میں دھرنوں کے دوران عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے خلاف ایس ایس پی عصمت جونیجو اور دیگر پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ کیس اسلام آباد کے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں گیا لیکن عدالت کے بار بار بلانے پر بھی جب ”ملزمان“ حاضر نہیں ہوئے تو عدالت نے ان کے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور پولیس کو انھیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ ایڈیشنل ایس ایچ او نے تاریخی پیشی پر عدالت کو رپورٹ دی کہ پولیس اپنے طور پر معلوم کر رہی ہے کہ ملزم عمران خاں کہاں ہے لیکن کوئی مصدقہ اطلاع نہیں مل رہی۔ اگر ملزم کا پتہ چل جائے کہ وہ کہاں ہے تو اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ ملزم طاہرالقادری ملک سے باہر ہے اس لیے اس کی گرفتاری ممکن نہیں۔ (یہ رپورٹ علامہ طاہرالقادری کے لاہور مال روڈ پر دھرنے سے ایک دن بعد پیش کی گئی۔) عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے ذریعے یہ دونوں ملزمان پورے پاکستان کو نظر آ رہے ہیں لیکن اگر نظر نہیں آتے تو صرف پولیس کو۔ شاید ہمارے دہشت گردی کے محترم جج صاحب نہیں جانتے ہوں گے کہ ایسے معاملات میں پولیس کی آنکھوں میں ہمیشہ ”ککرے“ پڑے ہوتے ہیں اور ککروں کی موجودگی
میں بینائی تو کمزور ہو ہی جاتی ہے۔ معاملہ اگر عامیوں کا ہوتا تو پولیس ملزمان کیا، ان کے تمام گھر والوں کو بھی گھیر کر عدالت میں پیش کر دیتی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اداروں کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ ادارے حکمرانوں کے در کی لونڈی اور گھر کی باندی بن کر ہی کام کرتے ہیں۔ اب جبکہ حاکمانِ وقت اور اقتدار کے ایوانوں کے امیدوار، دونوں ہی احتساب نہیں چاہتے اور ادارے ان کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں تو پھر احتساب کیسے ممکن ہے۔ ویسے بھی نوازلیگ ہو، پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف، تینوں بڑی جماعتیں کرپشن کے مگرمچھوں سے بھری پڑی ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ احتساب کا ڈول ڈالا جا سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.