
دُوریاں ہی دُوریاں
منگل 20 دسمبر 2016

پروفیسر رفعت مظہر
سوال مگر یہ ہے کہ کیا ہمارا دین یہیں تک محدود ہے؟۔ کیا سال میں ایک دو مرتبہ عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبیٴ مکرم ﷺ سے صرف عقیدت و محبت کا اظہار کرکے ہمارا دین مکمل ہو گیا؟۔
(جاری ہے)
کیا قُرآن وسنت کا صرف یہی تقاضہ ہے؟۔ ۔۔۔ نہیں جناب ! ہرگز نہیں۔ صرف عقیدت ومحبت کا اظہار ہی نہیں بلکہ اِس کے عملی تقاضے بھی ہیں ۔حضورِ اکرم ﷺ کے آخری خطبے کے مطابق قُرآن وسُنت کو مضبوطی سے تھام لینے سے ہی یہ تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔
اپنے دِل سے سوال کریں کہ کیا آپ کے اقوال ، افعال اور اعمال قُرآن وسُنت کے مطابق ہیں؟۔ اگر نہیں تو آقائے دو جہاںﷺ کو ایسی محبتوں کی ضرورت ہے نہ عقیدتوں کی ۔ آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہمارے سامنے بطور عملی نمونہ موجود ہے جس پر عمل کرکے ہی ہم راہِ راست اپنا سکتے ہیں۔ آئیے ! ذرا اپنی زندگی کے ہر پہلو پر نگاہ دَوڑا کر دیکھیں کہ ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہیے۔حضورِ اکرمﷺ کا فرمان ہے” تم میں سے ہر ایک راعی ہے اورروزِ قیامت تم سے تمہاری بھیڑوں کا حساب ضرور لیا جائے گا“۔ گویا سربراہ خواہ گھر کا ہو یا ملک کا ، اُسے روزِ محشراپنی ذمہ داریوں کا حساب دینا ہوگا۔ گھر کے سربراہ کے لیے یہ دیکھنا لازم ہے کہ کیا اُس کا خاندان دینِ مبیں کے طے کردہ اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر رہاہے؟۔ کیا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں؟۔ لیکن یہاں تو سربراہ کو اپنی مصروفیات سے فرصت ہے نہ اولاد کو دَورِ جدید کی لغویات سے ۔ ایسے میں بھلا قُرآن وسنت کے مطالعے کی فرصت ہی کہاں۔
ملکی سربراہان کا یہ عالم کہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر صرف مسندِ اقتدار سے چمٹے ہوئے ۔ اگر وہ چاہیں بھی تو خلفائے راشدین کی سی طرزِ حکمرانی اپنانے سے قاصر ۔یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ارضِ وطن کاکوئی سربراہ محافظوں کی فوج ظفر مَوج کے بغیر گھر سے ایک قدم بھی باہر نکالے، یا کسی مسجد کی چٹائی پر سونا پسند کرے اور یا پھر کسی بیوہ کے یتیم بچوں کے لیے اپنے کندھے پر اناج کی بوری اٹھائے نظر آئے۔ ہمارے حکمرانوں کا تو مطمح نظر ہی یہی کہ اُس مسندِ اقتدار کا کیا فائدہ جس میں شان وشوکت نہ ہو ، پروٹوکول نہ ہو اور ڈھیروں ڈھیر دولت نہ ہو ۔ وہ شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ فرات کے کنارے ایک کیا ، سَو کُتّے مَر جائیں ، اُن کا کونسا حساب ہونا ہے۔ لیکن صاحب ! حساب تو ہو گااور بہت سخت ہو گا،یہاں نہیں تو وہاں ۔ وہاں تو کسی پاناما ، شناما لیکس کی ضرورت بھی نہیں ہو گی کہ گواہی دینے کے لیے اعضائے جسمانی ہی کافی ہو ں گے۔ اصل سپریم عدالت تو وہی ہے جو کسی کے دھیان میں ہے نہ گمان میں ۔آقا ﷺ تو صادق وامین تھے ۔ کیا حکمرانوں نے کبھی سوچا کہ وہ کتنے سچّے اور امانت دار ہیں؟۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ ووٹوں کی بھیک کی خاطر بڑے بڑے سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں لیکن مسندِ اقتدار تک پہنچتے ہی ساری صداقتیں دَم توڑ جاتی ہیں اور وعدے بھُلا دیئے جاتے ہیں۔
ارضِ وطن میں امیر، امیرتَر اور غریب ، غریب تَر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک طرف نانِ جویں کے محتاج تو دوسری طرف خوانِ نعمت سے سَرفراز حالانکہ دین کا حکم تو یہ ہے کہ اگر آپ کا پڑوسی بھوکا ہے تو آپ پر روٹی کا ایک لقمہ بھی حرام ہے۔پتہ نہیں یہ کون سا معاشی اصول ہے جِس کے تحت راتوں رات ارب پَتی بنا جا سکتا ہے ۔ لاریب سوائے کرپشن اور بے ایمانی کے ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں توڈنڈی مارنے والوں پر لعنت بھیجی گئی ہے لیکن ارضِ وطن کا ہر نیا سورج کرپشن کی نئی کہانیاں لے کر طلوع ہوتا ہے ۔ جس ملک کا چیئرمین نَیب یہ کہے کہ یہاں ہر روز آٹھ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ، وہاں بہاروں کی اُمید رکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر کہنا ہی پڑتا ہے کہ
ہر اِک آنکھ جہاں آنسووٴں کا جھرنا ہے
میاں شہباز شریف المعروف خادمِ اعلیٰ نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ شادی بیاہ کی رسوم میں ”وَن ڈِش“ اور رات دَس بجے کی پابندی عائد کر دی لیکن ہم نے اِس کا توڑ بھی نکال لیا۔ آپ ”چھاپا مار“ ٹیم کی مُٹھی گرم کیجیئے اور وَن ڈِش کی دھجیاں اُڑائیے ۔ دست بستہ عرض ہے کہ خادمِ اعلیٰ اگر ایک نیک کام کی طرف چل نکلے ہیں تو پھر مایوں ، مہندی اور بارات پر مکمل پابندی کیوں نہیں؟۔ اسلام تو سادگی کا دَرس دیتا ہے اور جہاں تک ہمیں علم ہے لڑکی کے گھر والوں پر اِس اضافی بوجھ کی دِین سختی سے ممانعت کرتا ہے۔اربابِ اختیار سے ایک اور بھی سلگتا ہوا سوال کہ کیا اسلام میں ”جہیز“ کی اجازت ہے؟۔ اگر نہیں تو پھر کیا یہ صریحاََ بلیک میلنگ نہیں جس کے مجبور ومقہور والدین شکار ہو رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو والدین اپنی قیمتی ترین متاع ، اپنے جِگر کا ٹُکڑا غیر کے سپرد کرتے ہیں اور دوسری طرف مقدور بھر جہیز بھی دیتے ہیں تاکہ اُن کی بیٹی طعنوں سے بچی رہے ۔ بیٹی کو غیروں کے سپرد کرنے کے بعد والدین تا دَمِ مرگ اِسی خوف کا شکار رہتے ہیں کہ کہیں اُن کی بیٹی کو دُکھوں کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ وہ اُس کی خوشیاں خریدتے خریدتے قبر میں جا سوتے ہیں لیکن چین تو شائد اُنہیں قبر میں بھی نہ آتا ہو گا ۔ یہ ایک گھر کی نہیں ، گھر گھر کی کہانی ہے۔ کیا خادمِ اعلیٰ اپنے آہنی عزم کے ساتھ اِس کا تدارک کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آئیں گے؟۔
حکمت کی کتاب میں درج ہے کہ رَبّ کو جاننے والے اُس کے عالم بندے ہیں ۔ پتہ نہیں یہ ”عِلم فروش“ کہاں سے آ گئے ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کو طبقاتی کشمکش میں مبتلاکر دیا ہے۔ ایک طرف دینی مدارس کا نظام ہے تو دوسری طرف ٹاٹ سکولوں کا، جنہیں عرفِ عام میں گورنمنٹ سکول کہا جاتا ہے جہاں اُن لوگوں کے بچے زیرِ تعلیم ہیں جو مہنگے پرائیویٹ سکولوں کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ تیسرا نظام طبقہٴ اشرافیہ کے پرائیویٹ سکولوں کا ہے جن کی فیسیں سُن کر ہی دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ اِن اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا نصاب ،رہن سِہن اور یونیفارم یکسر مختلف ہے ۔ جب کسی” ٹاٹ سکول“ کا بچہ اُن کو دیکھتا ہے تو احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جس ملک میں تعلیم کو ٹُکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہو ، اُسے کیسے ”اسلامی جمہوریہ“ کہا جا سکتا ہے ۔ اور حرفِ آخر یہ کہ جَشنِ ولادتِ رسولﷺ کے تقاضے عمل سے پورے ہو سکتے ہیں ، محض عقیدت و محبّت کے اظہار سے نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.