
فوجی عدالتوں میں توسیع
منگل 21 مارچ 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
صرف پاکستانی طالبان نامی دہشت گرد کسی بھی صورت میں اتنی طویل جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے ۔
یہ تو بھارت ، افغانستان گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے جو دہشت گرد ابھی تک اپنی تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں ۔ یہ جنگ کتنی طوالت پکڑے گی ، اِس کا اندازہ لگانا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔جب کوئی ملک حالتِ جنگ میں ہو تو کچھ ہنگامی اقدام کرنے پڑتے ہیں ۔ پاکستان میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی انہی ہنگامی اقدامات میں سے ایک ہے جس پر کسی کو چیں بچیں ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ سیاسی مو شگافیوں کا مقام ہے کیونکہ یہ معاملہ ملکی سلامتی کا ہے ۔ ویسے بھی پاکستانی فوج کسی دشمن ملک سے نہیں آئی ، یہ اپنے ہی بھائی بیٹے ہیں جو قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں ۔ ہر روز کسی نہ کسی کڑیل جوان کے ماتھے پر شہادت کا جھومر سجتا ہے اور کسی نہ کسی دَر پر صفِ ماتم بچھتی ہے ۔ ہمارے وہ رہنماء جو حفاظتی حصار کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانا پسند نہیں کرتے ، کیا اُنہیں ادراک ہے کہ میرے وطن کے سجیلے جوان اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر ناموسِ وطن کی حُرمت پر قُربان ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں اگر صرف دہشت گردی کے مقدمات کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں تو ”بی بی جمہوریت“ کے شیدائیوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھنے لگتے ہیں ۔ جمہوریت کے اِن شیدائیوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اُن کے اقوال و افعال میں جمہوریت ہے کہاں جو وہ جا و بے جا جمہوریت کی رَٹ لگا کر ٹسوے بہانے لگتے ہیں ۔ ہمارے ہاں تو جمہور کی پکار ہمیشہ صدا بصحرا ہی رہی اور جمہوریت پسندوں کو جمہور کی یاد صرف اُس وقت آتی ہے جب وہ ووٹوں کی بھیک مانگنے دَر دَر کے بھکاری بنے پھرتے ہیں ۔ جونہی یہ مرحلہ طے ہوتا ہے رہبر اپنے عالیشان محلوں میں اور مجبور و مقہور فُٹ پاتھوں پر جنہیں دیکھ پر یادآ جاتا ہے کہ
وہ کل فُٹ پاتھ پر مُردہ پڑا تھا
اگر فوجی عدالتیں شجرِ ممنوحہ ہی ٹھہریں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہر مشکل میں فوجی بھائیوں کو ہی کیوں پکارتے ہیں ؟۔ اُنہیں صرف سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہی کیوں نہیں رہنے دیتے ۔ سیلاب آئیں تو سب سے پہلے ریسکیو کے لیے فوج پہنچتی ہے ، زلزلے آئیں تو فوجیوں کی ضرورت ، کوئی بڑا سانحہ ہو جائے تو فوج ہی اولین ترجیح ، قدرتی آفات پہ قابوپانا فوج کے بغیرممکن نہیں اور گولی کھانی ہو تو فوجیوں کا سینہ حاضر لیکن جب مکروہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہو تو فوجی عدالتوں کی بجائے سول کورٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگتا ہے ۔ آخر یہ دو عملی کیوں ؟۔ اگر فوج سے صرف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا کام ہی لینا ہے تو بسم اللہ پھر اُنہیں اپنا کام کرنے دیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو اُنہیں بہت سے اضافی کام سونپ دیئے ہیں جنہیں وہ بخوشی قبول کر رہے ہیں حالانکہ یہ اُن کی بنیادی ذمہ داری ہر گز نہیں اِس لیے قوم کو اُن کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.