
مجھے ہے حکمِ ازاں ۔۔۔۔۔
پیر 25 ستمبر 2017

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
اگر میاں صاحب کو کرپشن کے ناقابلِ تردید ثبوتوں کی بنا پر گھر بھیجا جاتا تو کوئی بھی غیرت مند پاکستانی اُن کے حق میں آواز بلند نہ کرتا لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ ہوگیا اور اُنہیں اُس تنخواہ کو الیکش کمیشن میں ڈیکلیئر نہ کرنے پر نااہل قرار دے دیا گیا جو اُنہوں نے کبھی وصول ہی نہیں کی۔
خیر ! یہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کا فیصلہ ہے جس پر سرِتسلیم خم کیے بنا کوئی چارہ بھی نہیں لیکن یہ یقین کہ پانچ رکنی بنچ کا یہ فیصلہ بھی اُنہی کئی فیصلوں میں شمار ہوگا جو عدلیہ کے دامن پر سیاہ دھبے ہیں اورجنہیں خود عدلیہ بھی بطور نظیر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔آج تو کپتان طنزیہ انداز اختیار کرتے ہوئے میاں نوازشریف کے یہ الفاظ بار بار دہرا رہے ہیں کہ ”مجھے کیوں نکالا“ لیکن کل کلاں جب اُن کی باری آئی تو وہ یہ کہتے پھریں گے کہمیں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
معزز جج صاحبان نے شریف فیملی کی طرف سے کی گئی نظرِثانی کی تمام اپیلیں مسترد کر دیں۔ اِس کے باوجود بھی انتہائی نا مساعد حالات میں مریم نواز نے تَن تنہا انتخابی میدان مار لیا جس سے کم از کم یہ تو ثابت ہو گیا کہ عوام کی غالب اکثریت نے عدلیہ کا میاں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ قبول نہیں کیا۔ میاں صاحب کی نااہلی تو فی الحال برقرار ہے لیکن اُن کی پارٹی صدارت کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی انتخابی اصلاحات کا بِل پارلیمنٹ اور سینٹ سے منظور ہوچکا جس کے مطابق نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے اور کوئی نااہل شخص بھی اپنے پاس پارٹی کا عہدہ رکھ سکتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ سینٹ میں ترمیم پر ترمیم کی منظوری دی گئی اور یہ بات غلط ثابت ہوگئی کہ پیپلزپارٹی کا سینٹ پر کنٹرول ہے کیونکہ مسلم لیگ نون اور اُس کے اتحادیوں نے پیپلزپارٹی کی انتخابی اصلاحات بِل میں کی جانے والی مجوزہ ترمیم کو مسترد کر دیا اور نوازلیگ نے 37 کے مقابلے میں38 ووٹوں سے میدان مار لیا۔ پیپلزپارٹی کی اِس ترمیم کے مسترد کیے جانے کے بعد میاں نوازشریف کی پارٹی عہدہ اپنے پاس رکھنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے ۔اِس بِل کی منظوری یقیناََ میاں صاحب کی نااہلی کے دھچکے کے بعد نوازلیگ کے لیے پہلی دِل خوش کُن خبر ہے۔
کپتان نے اِس ترمیم کے مسترد کیے جانے کے بعد کہا ”یہ نوازلیگ کی اخلاقیات سے گِری ہوئی حرکت ہے“۔ شکر ہے کہ کپتان صاحب کو اخلاقیات یاد تو آئی۔ اگر اُنہیں یاد نہیں تو ہم بتاتے چلیں کہ مسترد شدہ ترمیم پرویز مشرف دَور کی باقیات میں سے تھی۔ اِسے مارشل لاء کے ذریعے قانون کا حصّہ بنایا گیا تاکہ اہم سیاستدانوں کو ہدف بنا کر پارٹی قیادت سے روکا جا سکے۔ حیرت تو اِس بات پر ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپنے اور دھرتی کو ماں کے جیسی قرار دینے والے اعتزاز احسن نے اِس ترمیم کو پیش کیا،یہ الگ بات کہ اُنہیں مُنہ کی کھانی پڑی اور اپوزیشن کے میاں نوازشریف کی راہ روکنے کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یوں تو پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑی ہیں لیکن جہاں نوازلیگ کی مخالفت کی بات ہوتی ہے ،وہاں دونوں ایک صفحے پر ہو جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے مطابق آرٹیکلز 62/63 کی تلوار سے صرف محترم سراج الحق ہی بچ سکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے امیدوار نے حلقہ 120 سے صرف 592 ووٹ لیے اور اپنی ضمانت بھی ضبط کروا بیٹھے۔ ضمانت ضنط ہونا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ جماعت اسلامی ضمانتیں تو ضبط کرواتی ہی رہتی ہے۔ اکابرینِ جماعت اسلامی آج تک یہی ادراک نہیں کر سکے کہ پاکستان میں الیکشن کا مزاج ذرا ہٹ کے ہے۔ اگرجماعت اسلامی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو اُسے بھی اہلِ سیاست کا سا وتیرہ اختیار کرنا پڑے گا یعنی ”ہیں کواکب کچھ ،نظر آتے ہیں کچھ“ لیکن یہاں تو عالم یہ ہے کہ ہمارے سراج الحق صاحب” اینٹی کرپشن “ کی سربراہی سنبھال کر ہماری محبوب ”کرپشن“ کے پیچھے ”لَٹھ“ لے کر دوڑ رہے ہیں۔ ہماراجماعت اسلامی کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کر دے۔ مولانا ایک بڑی دینی جماعت کے سربراہ ہیں اور اُنہیں خواہ کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے، وہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔ مولانا ”اندرکھاتے“ سیاسی چالیں چلتے رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دَور میں وہ آصف زرداری کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے ۔ اُنہوں نے پیپلزپارٹی سے حصّہ بقدرِجُثہ (بلکہ جثے سے بھی کچھ زیادہ ہی) حاصل کیااور جب نوازلیگ حکومت میں آئی تو نعرہٴ مستانہ بلند کرتے ہوئے اُس کے اتحادی بن گئے۔ اگر جماعت اسلامی نے پاکستانی سیاست میں حصّہ لینا ہی ہے تو پھر اُسے بھی ”جیسا دیس ،ویسا بھیس“ پر عمل کرنا ہوگا جو اُس کے لیے ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔اِس لیے بہتر ہے کہ وہ گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرے تاکہ ہم جیسے جو عشروں سے جماعت اسلامی کے اقتدار میں آنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ہمیں بھی ایسے ہی قرار آجائے جیسے خلیل جبران نے کہا تھا ”جب میرا پیالہ آدھا بھرا ہوا تھا تو میں مسلسل چیختا رہا لیکن جب سارا خالی ہو گیا تو مجھے قرار آگیا“۔
حلقہ 120 میں بری ہزیمت کے بعد ہم نے ایک رُکنِ جماعت سے اِس کا سبب پوچھا تو محترمہ نے کہا کہ موذّن تو ایک ہی ہوتا ہے اور امام بھی ۔ ہم نے اذان دے دی ،اب اگر مقتدی نہ آئیں تو ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم نے تو اپنا فرض ادا کر دیا۔ محترمہ کی اِس بات پر قاضی حسین احمد یاد آئے۔ جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے جھنڈے تلے الیکشن میں حصّہ لیا اور بُری طرح پِٹ گئی لیکن قاضی صاحب مرحوم ومغفور نے ہمت نہ ہاری۔ اُنہی دنوں قاضی صاحب نے لاہور ہائی کورٹ بار سے خطاب کیا جہاں ایک وکیل نے طنزیہ انداز میں اُن سے سوال کیا کہ اُنہوں نے اتحادی سیاست چھوڑ کر ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کیوں ٹھانی؟۔ قاضی صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اُنہوں نے ڈیڑھ اینٹ لگا کر مسجد کی بنیاد رکھ دی ہے ،اب اِس کی تکمیل قوم کے ذمے ہے۔جب عشروں بعد ہم نے ایک رُکنِ جماعت کو اُسی محور کے گرد گھومتے دیکھا تو ہم نے دِل میں سوچا کہ اِس جماعت کا ”کَکھ“ نہیں ہو سکتا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.