
تم سبھی کچھ ہو ، بتاوٴ تو مسلمان بھی ہو؟
ہفتہ 25 نومبر 2017

پروفیسر رفعت مظہر
مَن اپنا پرانا پاپی ہے ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
(جاری ہے)
تم سبھی کچھ ہو ، بتاوٴ تو مسلمان بھی ہو؟
دینِ مبیں تو دوسروں کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے اور آقاﷺ نے تو اُس عورت کی مزاج پُرسی بھی کی جو آپﷺ پر ہر روز کوڑا پھینکتی تھی۔ طائف کے شَرپسندوں نے آپﷺ پر پتھروں کی بارش کر دی، آپﷺ کا پورا وجود ِمبارک زخموں سے چُور چُور ہوگیا، جوتے خون سے بھر گئے۔ آپﷺ نے ایک باغ میں پناہ لی ،فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر حکم ہو تو طائف کا پہاڑ بستی پر گِرا کر اِن شَرپسندوں کو نابود کر دوں؟۔ تب عالمین کے رحمت بنا کر بھیجے گئے نبیﷺ نے فرمایا ” نہیں ! اگر یہ اسلام قبول نہیں بھی کرتے تو مجھے یقین ہے کہ اِن کی آنے والی نسلیں مسلمان ہو جائیں گی “ (مفہوم)۔ لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن فیض آباد (راولپنڈی) میں دھرنے پر بیٹھے یہ لوگ کون ہیں جو دَم تو آقاﷺ کی محبت کا بھرتے ہیں لیکن لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے اُن کے دَرپئے آزار ہیں؟۔ یہ کون لوگ ہیں جن کا سربراہ کہتا ہے ”الحمدُ للہ! خوشی کی بات ہے کہ بچّے اپنے سکول نہیں جا سکتے ،مریض ہسپتالوں میں پہنچنے سے پہلے ہی دَم توڑ رہے ہیں، مزدور تلاشِ رزق میں نہیں نکل سکتے اور کاروبارِ زندگی ٹھَپ ہو کر رہ گیاہے“۔ جب اُس سے سوال کیا گیا کہ ایسا کیوں ؟۔ اُس نے جواب دیا ”نبی ﷺ کی محبت سب سے پہلے، باقی سب بعد میں“۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا آقاﷺ کی تعلیمات یہی ہیں ؟اور کیا دینِ مبیں اِس کی اجازت دیتا ہے؟۔ حبّ ِ رسول کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دوسروں کی دستگیری کی جائے ،اُن کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں اور اُن کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی جائے ،یہ ہرگز نہیں کہ حبّ ِ نبی کی آڑ میں دوسروں کے دکھوں میں اضافے کا سبب بنا جائے۔ دراصل دھرنے میں بیٹھے لوگوں کا سربراہ کسی سانحے کے انتظار میں ہے ۔ اُسے تو اِس بات کی بھی خوشی ہے کہ رینجرز ،ایف سی اور پولیس کے جوان مجمعے کو گھیرے ہوئے ہیں اور کسی وقت بھی ایکشن ہو سکتا ہے۔ اُسے تو لال مسجد جیسے کسی سانحے کی تلاش ہے کیونکہ اُسے اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں درکار ہیں۔ اگر یہ دیکھنا ہے کہ وہ اخلاقیات کے کِس درجے پر فائز ہے تو اُس کی وہ ”ویڈیو“ دیکھ لیں جو آجکل سوشل میڈیا پر وائرل ہے ، جس میں وہ حکمرانوں کو غلیظ ترین گالیاں بَک رہا ہے اور اُس کے حواری سُبحان اللہ ، سبحان اللہ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
حکومتی رِٹ اِتنی بھی کمزور نہیں کہ دھرنے پر بیٹھے لگ بھگ دو ہزار لوگوں سے فیض آباد کا قبضہ نہ چھڑوا سکے، پولیس ،ایف سی اور رینجرز کے پانچ ہزار جوان وہاں تعینات کیے جا چکے ہیں جو آسانی سے فیض آباد خالی کروا سکتے ہیں ۔اِس کے باوجود حکومت نہیں چاہتی کہ ماڈل ٹاوٴن لاہور جیسا کوئی سانحہ ظہورپذیر ہو۔ آج سیاسی جماعتوں کے علاوہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اِس دھرنے کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن حکومت افہام وتفہیم اور مذاکرات کے ذریعے ہی اِس دھرنے کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے اور بہتر بھی یہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر تشدد کے ذریعے دھرنے والوں کو اُٹھانے کی کوشش کی گئی تو یہی الیکٹرانک میڈیا جو حکومتی رِٹ پر سوال اُٹھا رہا ہے ،اُس کے کیمرے ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرنے میں مصروف ہو جائیں گے۔ تب نہ تو میڈیا اور نہ ہی اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں یہ سوچیں گی کہ حکومت نے ہر راہ اپنا لی لیکن دھرنے والے ٹَس سے مَس نہیں ہوئے۔ اِسی لیے وزیرِداخلہ احسن اقبال نے کہا ” ایکشن آخری آپشن ہوگا“۔
جمہوری ممالک میں آزادیٴ اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہوتی ۔ بَدقسمتی سے ہمارے ہاں اِس آزادی کو مادرپِدر آزادی سمجھ لیا گیا ہے جس کے بانی تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں ہیں جنہوں نے ڈی چوک اسلام آباد پر 126 روزہ دھرنا دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آزادی کا مطلب مادرپِدر آزادی ہے۔ کنٹینر پر ٹہلتے عمران خاں نے اُن دنوں انارکی پھیلانے کی بھرپور کوشش کی ۔ اُنہوں نے سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ٹیکس اوریوٹیلٹی بِلز دینے بند کر دیئے جائیں اور پیسہ ہُنڈی کے ذریعے بھیجا جائے۔ دھرنے کے دَوران ہی پارلیمنٹ ہاوٴس کے گیٹ توڑے گئے اور اُس کے لان پر قبضہ کیا گیا۔ ایوانِ وزیرِاعظم پر حملہ ،پی ٹی وی پر قبضہ اور تھانے پر حملہ کرکے اپنے حواریوں کو زبردستی چھڑوانے جیسے ”کارنامے“ بھی اِسی دھرنے کے دَوران سَرانجام پائے۔ اِس سب کچھ کے باوجود خاں صاحب آج بھی دندناتے پھرتے ہیں اور کِس کی مجال ہے جو اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ یہی وہ ”شہ“ ہے جو معاشرے کی نَس نَس میں ناسور کی طرح سما چکی ہے اور ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ جب عمران خاں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا تو ہمارا کیا بگاڑ لے گا ۔
جب ہم اِن حقائق سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو عمران خاں کے چاہنے والوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن ہم نے بھی طے کر رکھا ہے کہ وطنِ عزیز پر گزشتہ چار سالوں میں گزری حکایتِ خونچکاں دہراتے رہیں گے کہ یہی دھرتی ماں کی محبت کا تقاضہ ہے۔ ہمیں اپنے کالموں پر گالیاں تو بہت پڑتی ہیں لیکن آج تک کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ہمارے لکھے کو جھٹلا سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.