امریکہ کی سعودی عرب کے حوالے سے بدلتی خارجہ پالیسی

منگل 2 مارچ 2021

Qari Mohammad Siddique Alazhari

قاری محمد صدیق الازھری

انسٹھ سالہ صحافی جمال خاشقجی کو آخری مرتبہ دو اکتوبر 2018 کو ترکی کے شہر استنبول کے سعودی سفارت خانے میں جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ خاشقجی ماضی میں سعودی عرب کی حکومت کے مشیر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں اور وہ ملک چھوڑ کر سنہ 2017 میں امریکہ چلے گئے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکہ نے خاشقجی کے قتل کے معاملے میں سعودی شہزادے کا کھلے عام نام لیا ہے جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس الزام سے انکار کرتے آئے ہیں کہ انھوں نے جمال خاشقجی کے قتل کے احکامات جاری نہیں کیے تھے۔


سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے سعودی قیادت کے خلاف ’جارحانہ اور غلط‘ قرار دیا اور یہ کہا کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

سعودی وزارت خارجہ نے سرکاری خبر رساں ادارے سعودی ال اناعیہ ایجنسی (ایس پی اے) کے ذریعہ شائع کردہ ایک سرکاری بیان میں کہا ہے کہ اس رپورٹ میں غلط معلومات کا ایک مجموعہ اور جھوٹے نتائج شامل ہیں۔

کسی بھی ایسے معاملے کو مسترد کرتے ہیں جو ملک کی قیادت، خود مختاری اور اس کی عدلیہ کی آزادی کے لیے تعصب کا باعث بنے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں ایسی رپورٹ جاری کرنے اور اس میں پائے جانے والے غلط اور بلاجواز نتائج پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب سعودی سلطنت نے اس گھناؤنے جرم کی مذمت کی تھی اور اس کی قیادت نے یہ یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے تھے کہ مستقبل میں دوبارہ ایسا بدقسمت واقعہ نہ دہرایا جا سکے۔


امریکی صدر بائیڈن نے جمعرات کو سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان سے فون پر رابطہ کیا تھا۔ انھوں نے یہ فون کال رپورٹ پڑھنے کے بعد کی تھی لیکن اس رابطے کے بعد ایسی کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی تھیں کہ آیا اس رپورٹ سے متعلق کوئی بات ہوئی یا نہیں۔
یاد رہے سعودی عرب نے استنبول میں موجود سعودی سفارتخانہ کے پانچ اہلکاروں کو موت کی سزا سنائی تھی لیکن گذشتہ سال ستمبر میں ان کی سزا میں کمی کر کے اس کو 20 سال قید میں بدل دیا گیا تھا۔


اگر آپ عرب اتحاد کے مؤقف کی طرف دیکھیں تو عرب اتحادی ملکوں نے جمال خاشقجی سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کردی ہے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت نے سعودی عرب کے موقف کی حمایت کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسی کسی بھی رپورٹ کی سخت مذمت کرتے ہیں جو سعودی خودمختاری کے خلاف ہو۔ بظاہر اگر دیکھا جائے تو امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو پریشرائز کرنے کے لیے یہ رپورٹ منظر عام پر پیش کی، لیکن اس رپورٹ میں صرف مفروضوں کا سہارا لیا گیا، کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے گئے جس وجہ سے امریکہ کو مشرقی وسطیٰ سے سبکی کا سامنا ہے اور وہ اب ہر روز میڈیا پر نئی تاویلیں پیش کر رہا ہے۔


سابق امریکی وزیر خارجہ پومیو نے بھی کہا کہ موجودہ صدر سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایسا ماحول پیدا کر رہے ہیں تاکہ سعودی سرزمین کے دشمن اس موقع کا فائدہ اٹھا سکیں۔
امریکی انتظامیہ کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ مشرقی وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائے، اگر وہ بہتر نہیں بناتا تو جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کو کافی حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :