دینی مدارس میں بگڑتی صورتحال

پیر 21 جون 2021

Qari Mohammad Siddique Alazhari

قاری محمد صدیق الازھری

مجھے بدقسمتی سے یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ دینی مدارس میں آئے دن عجیب و غریب واقعات سننے کو مل رہے ہیں۔ جس طرح ماضی کے ادوار میں ہر معلم، ہر مدیر، ہر سرپرست اپنی پوری توجہ مدارس کی ترقی اور طلباء کی تعلیم و تربیت پر دیتے تھے اب وہ ساری توجہ دنیاوی معاملات میں صرف کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے ادوار میں استاد اور شاگرد کے مابین ایک روحانی رشتہ ہوتا تھا، استاد ایک روحانی باپ کے طور پر جانا جاتا تھا، جس علاقے سے یا جس راستے سے عالم دین کا گزر ہوتا تو اس علاقے کے تمام لوگ اس عالم دین کی عزت کرتے تھے۔

ماں باپ بڑے شوق کے ساتھ اپنے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرواتے تھے، سینکڑوں کی تعداد میں دور دراز علاقوں سے سفر کرکے نوجوان دینی تعلیم کے حصول کے لیے مدارس میں داخلہ لیتے تھے، اس دور میں اس طرح کے واقعات بھی رونما نہیں ہوتے تھے اور الله تعالٰی کی دینی مدارس پر اپنی خاص رحمت ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

لیکن آج کے دور میں اگر آپ اپنے اردگرد کے علاقوں میں نظر دوڑائیں تو آپ کو بہت ہی گھٹیا خبریں سننے کو ملیں گی، سوشل میڈیا پر یا پرنٹ میڈیا پر ہر طرح کے پلیٹ فارم پہ دینی مدارس کے حوالے سے کوئی نا کوئی خبر گردش کر رہی ہوتی ہے۔

ان سب چیزوں کی ذمّہ داری ہم حکومت پر ڈال کر بری الزمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ہم سب اس عمل کے قصور وار ہیں۔ ہم نے اپنے منہج کو چھوڑ دیا، ہم نے قرآن مجید سے اپنا رشتہ توڑ لیا، ہم نے دینی مدارس سے اپنی توجہ ہٹا لی، ہم نے صراط مستقیم کا رستہ اپنانے کی بجائے شیطان کے رستے پر عمل پیراں ہیں، جس کا نقصان ہمیں یہ ہوا کہ دینی طبقہ کے خلاف آئے روز کوئی نہ کوئی خبر میڈیا پر گردش کر رہی ہوتی ہے، جس کا نقصان ہمیں یہ ہوتا ہے کہ گناہ و غلط کام کوئی ایک شخص کرتا ہے لیکن تنقید برائے تنقید میں ہم سب نشانہ بن جاتے ہیں۔

بہرحال تمام مکتبہ فکر کے علماء نے مولوی عزیز الرحمن کی مذمت کی اور اس کو سزا دینے کی حمایت کی لیکن پورے پاکستان میں جہاں جہاں طلباء دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں انکے گھر والوں کے ذہنوں میں کیا گزری ہوگی؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہر باطل کو للکارا ہے، ہم تو وہ لوگ ہیں جو تن تنہا "عورت مارچ" کے حمایتیوں کے خلاف میدان عمل میں ہیں، ہم تو وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو سیدھا راستہ دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اگر اس طرح کا گھٹیا کام کوئی ہم میں سے اٹھ کر کرے تو یہ ہماری ساری جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔


ایک حدیث میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
’’علم سیکھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے علم سیکھنا خشیت، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت،اس کا پڑھنا پڑھانا تسبیح،اس کی جستجو جہاد، ناواقف کو سکھانا صدقہ او راس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا ثواب کا ذریعہ ہے۔ نیز علم تنہائی کا ساتھی، دین کا راہ نما،خوش حالی وتنگ دستی میں مدد گار، دوستوں کے نزدیک وزیر، قریبی لوگوں کے نزدیک قریب اورجنت کی راہ کا مینار ہدایت ہے۔

اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو اوپر اٹھاتا ہے۔ اور انہیں بھلائی میں راہ نمائی، قیادت وسرداری عطا کرتا ہے۔ جن کی پیروی کی جاتی ہے، وہ بھلائی کے راہ نما ہوتے ہیں، جن کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے اورجن کے افعال کو نمونہ بنایا جاتا ہے۔ فرشتے ان کے دوستی کی خواہاں ہوتے ہیں اورپنے پروں سے ان کو چھوتے ہیں۔ ہر خشک اور تران کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے، یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں، جان دار، خشکیوں کے درندے اور جانور، آسمان اور اس کے ستارے تک۔

علم ہی کے ذریعے اللہ کی اطاعت وعبادت کی جاتی ہے، اس کی حمد وثنا ہوتی ہے، اسی سے پرہیزگاری ہوتی ہے، اسی سے صلہ رحمی کی جاتی ہے، اسی سے حلال اور حرام جانا جاتا ہے۔ وہی راہ نما اور عمل اس کا پیروکار ہے۔ بدبخت اس سے محروم رہتے ہیں۔‘‘(اوکماقال ﷺ۔ابن عبدالبر کی کتاب’’جامع بیان العلم وفضل سے ماخوذ)
اور بچہ جب علم دین سے آراستہ ہوتا ہے تو جھوٹ، غیبت، چغل خوری، دھوکہ، والدین اور بڑوں کی نافرمانی، ظلم و زیادتی، قتل و غارت گری، بے حیائی، حق تلفی، ناپ تول میں کمی، ناحق کسی کے مال کو لےلینا، قوم وملت کے اشیاء اور رقم کو ناجائز استعمال کرنا، سود لینا اور سود پر دینا ، ناحق کسی کو تکلیف پہچانا، زور و زبردستی سے کسی کی زمین کا حاصل کرنا، کسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، شرک، کفر، رسم و رواج بدعات وخرافات اور ہر قسم کی برائی سے محفوظ رہے گا، اور ہر معاملہ میں صداقت، دیانت، امانت داری کے علاوہ بڑوں کا اداب و اکرام اور چھوٹوں پر شفقت اور رحم کا معاملہ کرنے کے ساتھ ساتھ خوف خدا کی وجہ سے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی نہ صرف فکر بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیگا- دینی حمیت، اسلامی غیرت،بھلائی، خیر خواہی،انسانیت، ہمدردی جیسے جذبات اور صفات حمیدہ اس میں موجزن ہوں گے، خلاصہ یہ کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عملی نمونہ ہوگا۔

لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا کہ ایک استاد اپنی پوری توجہ اپنے شاگرد پر دے، اسے اچھے برے کی تمیز سکھائے، پھر دنیا اس کی قدر کرے گی لیکن اگر دینی تعلیم حاصل کرکے بھی وہ شیطانی کاموں سے باز نہیں آیا تو علم اس کے لیے کوئی فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا اور پھر الله تعالٰی اس کو ذلیل و رسوا ہی کرے گا۔ میری تمام دینی مدارس کے سربراہان سے درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ اپنے اداروں میں سخت نگرانی کریں، عملے کو بڑھا دیں لیکن ایسی کوئی حرکت نہ ہونے پائے جس سے ہم سب کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے، سکیورٹی کا نظام سخت کریں، حکومتی ہدایات پر عمل کریں اور طلباء کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں۔ الله تعالٰی ہم سب کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :