ویلنٹائن ڈے… !

منگل 15 فروری 2022

Rana AIJAZ HUSSAIN Chauhan

رانا اعجاز حسین چوہان

محبت کا اظہار ضرور کرنا چاہیے مگر ان سے جو کہ ہماری محبت کے مستحق و منتظر ہیں ۔ محبت ماں باپ سے، بہن بھائیوں سے، بیوی سے ضرور کرنا چاہیے، مگر ضروری ہے کہ اس کے لیے کوئی ایک دن مخصوص نہ کیا جائے ۔ گزشتہ چند برسوں سے ہمارے معاشرے میں عجیب دستور چل نکلا ہے کہ ہم پس منظر سے آگاہی حاصل کئے بغیر اغیار کی فرسودہ تہذیب کے دلدادہ بنتے چلے جارہے ہیں۔

14 فروری کے دن منائے جانے والے یوم محبت پر نوجوان شادی شدہ و غیر شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو پھول اور دیگر تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اس کے علاوہ لوگ بہن، بھائیوں، ماں، باپ، رشتے داروں اور دوستوں کو پھول دے کر بھی اس دن کی مبارکباد دیتے ہیں۔ بلاشبہ محبت ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے، اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی بھی نظر آتا ہے، اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اور جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے نام پر کسی دن کو مخصوص کرکے، اور اس کے بدتہذیب طریقہ کار سے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔

یہاں قابل غور بات ہے کہ کیا کبھی کسی عیسائی نے عید الفطر ادا کی،یا کسی ہندو نے عید الاضحی پر قربانی دی،کیا کسی ایک یہودی نے ماہ رمضان میں روزہ رکھے ؟ یقینا آپ نے ایسا کبھی نہ دیکھا اور نہ سنا اور یہ حقیقت ہے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، تو پھر ہم اغیار کی یہ فرسودہ اور بے ہودہ رسم بحیثیت مسلمان کیوں مناتے ہیں۔ ہر مذہب اپنے اندر کچھ تہوار رکھتا ہے جبکہ دین اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو دو تہوار دیئے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ دورجاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ تشریف لائے توصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں، عیدالفطر اور عیدالاضحی“ (صحیح سنن نسائی)۔


غیر مسلموں کے رسم و رواج اور تہواروں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر دورس نگاہ رکھنے والے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ”بوانہ“ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے،کیا میں اسے پورا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا” کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟“ اس نے کہا نہیں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” کیا وہاں مشرکین کے تہواروں ،میلوں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟“ اس نے کہا، نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں“ (ابوداؤد)۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کی ثقافت حالات کے مطابق نموپزیر ہوتی ہے جبکہ مذہب کے احکامات اٹل ہوتے،ان میں اگر تغیروتبدل کر دیا جائے تو ان کی اصل شکل برقرار نہیں رہتی۔

اگرچہ مذاہب میں بھی کچھ نرمی ہوتی ہے، مگر اتنی نہیں کہ اس کے بنیادی احکامات کو ہی توڑ مروڑ دیا جائے۔ بلاشبہ مذہب اور ثقافت اپنے اصل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں،اور ان میں کشمکش چلتی رہتی جیسا کہ ویلنٹائن ہی کی مثال لے لیں تو خود عیسائی مذہب اس کے خلاف ہے۔لہٰذا ثابت ہوا کہ ہر لچر پن کو ثقافت کا لبادہ اوڑھا کر حلال نہیں کیا جا سکتا۔

فحاشی ہر مذہب میں ایک قبیح فعل ہے، دین اسلام تو ہے ہی پاکیزہ اور صالح لوگوں کا دین۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔“ جبکہ ویلنٹائن ڈے تو ہے ہی کھلی بے حیائی اور فحاشی، لہٰذا اسے کسی صورت بھی ایک صالح معاشرہ اختیار نہیں کر سکتا۔ ہمیں چاہیے کہ فرسودہ و بیہودہ رسم و رواج کو ترک کرکے اپنی زندگی اسلام کے روشن احکامات کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں، جوکہ باحیاء اور سکون و راحت سے بھرپور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :