لگتا ہے اس دیس میں عدالت نہیں ہوتی

اتوار 12 اپریل 2020

Rauf Saeed

رؤف سعید

کراچی میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی ایک لڑکی کا جوڈیشل مجسٹریٹ کے ہاتھوں جو اسکے روبرو بیان قلمبند کروانے کے لیے آئی تھی اسی کے چیمبر میں زیادتی کا نشانہ بننے پر ریاست کا ڈھیلا ڈھالا ردعمل اس کے یکسر مردہ ہونے پر دلالت کرتا ہے
منصب انصاف پر بیٹھے ایک درندہ صفت شحص کے ہاتھوں انصاف کی طالب قوم کی اس بیٹی کی اسطرح سے عزت کی پامالی حوف ناک حد تک تشویش ناک بات تو ہے ہی لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ ریاست کی بد ترین بےحسی کا مظہر بھی ھے، جو اس کے وجود کے جواز پر ایک بہت بڑے سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے
 ریاست کا ردعمل اتنا ہی خوفناک ہونا چاہیے تھا جس قدر یہ خوفناک حرکت ریاستی منصب پر بیٹھے ایک شخص کے ہاتھوں سرزد ہوئی تھی تو پھر تو ریاست کے زندہ ہونے اور اس کے وجود کا جواز با جواز قرار بھی پاجاتا لیکن انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا معطلی انکوائری اسطرح کے معاملات بس
انہی دائروں میں گھومتے گھومتے وقت گزاری کے حربوں کی نذر ہو جاتے ہیں اور انصاف کا طالب مظلوم شحص تا عمر اپنے دامن کے زخموں سے تڑپتا سسکتا آسودہ خاک اور ظالم آسودہ منزل ہو جاتا ہے
جس ریاستی نظام میں بااثر ظالم افراد کی بازپرس مواخذے اور اسکو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کٹہروں کے دروازے بند و مقفل صورت میں ہر روز انصاف کے جنازے نکال رہے ہوں اور دوسری طرف عام و غریب افراد کے لئے کٹہرے بے رحم و سفاک  ہوں تو پھر ایسے ریاستی نظام سے معاشرتی امن سماجی سکون اور معاشی آسودگی کی کونپلیں پھوٹنے کی توقع اور امید رکھنا خام خیالی و حود فریبی ہی قرار پائے گی کیونکہ نظام زندگی تو تمام تر رنگوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے جس کے بغیر ریاست تا دیر اپنا وجود برقرار رکھنے سے قاصر ہو جاتی ہے نظام زندگی جب تک اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ متوازن سطح پر نہ ہو گی ریاست تا دیر اپنا وجود برقرار رکھنے سے بھی قاصر ہو گی قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے اور کف افسوس ملنے کی نوبت آجائے ہمیں معاشرے کے کچلے جذبات اور رستے زخموں کو مندمل کرنے کے نظام کا قبلہ درست کرنے کے لیے فوری و سنجیدہ توجہ دینا ہوگی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :