شُتربان

پیر 6 اکتوبر 2014

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

وہ ایک سائیڈ پہ ایک دیوار کیساتھ اپنے آنسووئں کو چھپانے کی کوشش کررہا تھا، بہت محبت سے پرورش کی تھی اس نے ۔ ۔ اپنے ہاتھوں سے اسے پانی پلایا،رسیوں سے اس کی ٹانگیں باندھیں۔ ۔ اپنے سامنے اس کے گلے پہ نیزہ مارتے دیکھا ۔ ۔ اللہ ُ اکبر ۔ ۔خون کا فوارا چل پڑا۔ ۔ وہ سائیڈ پہ ایک کرسی پہ اس طرح بیٹھ گیا۔ ۔ جیسے ایک غریب باپ اپنی بیٹی کی شادی کا فریضہ ادا کرکے بیٹھ جاتا ہے ۔

۔ تھوڑی دیر بعد اُٹھا ،رومال سے اپنے چہرے کو صاف کیا،اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا،اجازت لی اور وہاں سے رخصت ہوگیا ۔ ۔عید کا دن تھا صبح دس بجے کا وقت تھا اس لیے وہ جلدی جلدی اپنے گاوٴں جانا چاہتا تھا تاکہ عید کا باقی دن وہ اپنے خاندان کے ساتھ گزار سکے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھا شتربان عبدالمجید۔
عبدالمجید فیصل آباد کے نواحی علاقے کا رہنے والا تھا۔

(جاری ہے)

اس کا گاؤں فیصل آبادسے تقریبا چالیس ،پچاس کلو میٹر کے فاصلے پہ واقعہ تھا،وہ اپنے گھر میں بیوی چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ رہتا ۔ ۔ پیشے کے لحاظ سے گوالہ تھا ، اس کے پاس تین بھینسیں ایک بکرا اور ایک اُونٹ تھا ، بھینسوں کا دودھ بیچ کر گھر کی گزر بسر چلتی تھی۔ ۔ مگر اُونٹ پالنا اس کا شوق زیادہ اور پیشہ کم تھا۔ ۔ ہر سال ایک اُونٹ کی پرورش کرتا تھا اور عید کے موقع پہ گوجرانوالہ میں آکر فروخت کردیتا ہے۔

۔دو سال پہلے میرے کزن محمد رفیع کا جب اس سے سودا طے ہوا ۔ ۔ انہوں نے عبدالمجید کو رقم کی ادائیگی کی، محمد رفیع کے ملازم فضل حسین نے اونٹ کی مہار تھامی، گوجرانوالہ سٹی سے راہوالی قصبہ جو کہ گوجرانوالہ سٹی سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر کینٹ ایریا میں واقع ہے راہ لی ،مگر اونٹ ایک قدم آگے ناں بڑھا ۔ ۔ انہوں نے ایک آدمی کو چارہ پکڑا کے آگے لگایا مگر بات نہ بنی۔

۔ پھر انہوں نے عبدالمجیدکی خدمات حاصل کیں جیسے ہی عبدالمجیدنے فضل حسین کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کیا جانور نے بھی اپنے قدم بڑھانے شروع کر دئیے۔ ۔ مگر جیسے ہی عبدالمجیدعلیحدہ ہونے کی کوشش کرتا اُونٹ اپنے قدم جما لیتا۔ ۔ چنانچہ طے یہ پایا کہ عبدالمجیدان کو راہوالی تک لے کر جائے گا اور پھر منزل پر چھوڑ کے اپنی راہ پہ چلا جائے گا۔ ۔ ۔

۔اپنی منزل پر پہنچ کر جب محمد رفیع نے اُونٹ کی پرانے مالک کے ساتھ وابستگی دیکھی تو اس نے اسے کل یعنی عید کے دن قربانی تک رکنے کی درخواست کر دی عبدالمجیدجو کہ اس بات کو پہلے ہی سمجھتا تھا ان کی درخواست کو قبول کرلیا۔ ۔ عید کے دن ہم سب نے دیکھا کہہ یہ اُونٹ عبدالمجیدکے علاوہ کسی اور کی حرکات کو نہیں سمجھ رہا تھا ۔ ۔بہرحال عبدالمجیدتکبیر تک تمام کام میں ساتھ رہا ، جیسے ہی اُونٹ ذبح ہوگیا وہ خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوگیا۔


پچھلے سال جب عید سے ایک دن پہلے اپنے کزن محمد رفیع کی ورکشاپ کے پاس سے گزرا، باہر اُونٹ کو دیکھا تو وہاں چلا گیا سامنے دیکھا کہ عبدالمجید ایک کرسی پر بیٹھا پلیٹ میں چائے دال کر پی رہا تھا، میں نے محمد رفیع کی طرف دیکھا اور پوچھا یہ وہی بھائی صاحب ہیں نا ں جن سے آپ نے پچھلے سال بھی اُونٹ خریدا تھا۔ ۔ محمد رفیع نے سر کے اشارے اور زبان سے اکٹھا جواب دیا۔

۔ جی یہ وہی بھائی صاحب ہیں، ان کا فون نمبر میرے پاس تھا اس لیے میں نے کہا کہ آپ اُونٹ لے کر یہاں ہی آجائیں۔ ۔ لہذا ان دونوں نے دوستی دوستی میں سودا طے کرلیا۔ ۔ تھوڑی دیر بعد جب رش کم ہوا میں نے عبدالمجید کی طرف دیکھا اور کہا ۔ ۔ آپ ایک ہی اُونٹ پالتے ہیں۔؟ اس نے جواب دیا ۔ ۔جی باؤ جی ۔ ۔ پالنے کو تو زیادہ بھی پال سکتا ہوں مگر مجھے اُونٹ سے عشق ہے۔

۔ اور عشق ہمیشہ ایک سے ہی ہوتاہے۔ ۔ آپ خود اس کی قربانی کیوں نہیں کرتے،میں نے دوسرا سوال کر دیا۔ ؟ میں خود بکرے کی قربانی کرتا ہوں اور ویسے بھی مجھ میں حوصلہ نہیں اپنے دوست کا خون بہتا ہوا دیکھوں۔ ۔ سارا کام تو آپ خود کرتے ہیں اپنے ہاتھ سے، میرے اس سوال پر وہ شخص خاموش رہا۔ ۔ اگلا دن جو کہ عید کا دن تھا میں عبدالمجید کو دیکھتا رہا ۔ ۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اُونٹ کو پانی پلایا، رسیوں سے باندھا ،جیسے ہی نیزہ اور چھریوں کی آمد ہوئی وہ چپکے سے اس دائرے سے نکلا اور کچھ فاصلے پر جاکر بیٹھ گیا۔ ۔ اسی انداز سے اپنا منہ رومال سے صاف کیا ، کپڑے کا تھیلا اٹھایا ،اجازت لی اور چل پڑا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :