
امام کربلا سے مدینہ تک
ہفتہ 24 اکتوبر 2015

رؤ ف اُپل
(جاری ہے)
محدثین بیان کرتے ہیں(بحوالہ ذبح عظیم)امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، بلکہ زمین وآسمان نے بھی آنسو بہائے، نواسہ رسولﷺ کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیااس کے نیچے سے خون نکلا۔ ۔ شام میں بھی جو پتھر ہٹایا گیااس کے نیچے سے بھی خون کا چشمہ اُبل پڑا۔محدثین کا کہنا ہے شہادت حسین سے پہلے آسمان سرخ ہوگیا۔ ۔پھر سیاہ ہو گیا۔۔ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے قیامت قائم ہوگئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
امام طبرانی نے ابو قبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ۔۔
ترجمہ:جب سیدنا امام حسین کو شہید کیا گیاتو سورج کو شدید گہن لگ گیاحتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودارہوگئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ رات ہے۔
امام طبرانی نے معجم الکبیرمیں جمیل بن زیدسے روایت کی ہے انہوں نے کہا۔ ۔
ترجمہ:جب حسین کو شہید کیا گیا تو آسمان سرُخ ہوگیا۔
خاندانِ امام کے لئے غموں اور دکھوں کی اور یزیدی لشکر کے لئے جشن کی رات کٹ گئی ، یزیدی لشکر میں کسی نے مشورہ دیا کہ حضرت زین العابدین کو بھی شہید کر دیا جائے مگر ابن سعدنے اس کے مشورے پر عمل ناں کیا ۔ ۔ ۔ ۔ اگلی صبح یزیدیوں نے اپنی تمام لاشوں کو اکٹھا کیا ، دفن کیا اور چلنے کی واپسی کی تیاری کرنے لگے ۔ ۔یزیدی لشکر نے سیدنا امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کے سر نیزوں پہ چڑھا لئے جسموں کو بے گورو کفن چھوڑا ، حضرت زین العابدین اور اہل بیت کو ساتھ لیااور کوفہ کی جانب روانہ ہوگئے۔۔ ۔ ۔دریائے فرات کے کنارے آبا د قبیلہ بنو سعد نے جب دیکھا کہ یزیدی اہل ِ بیت کی لاشوں کو بے گورو کفن چھوڑ کر بھاگ کئے ہیں تو انہوں نے تمام شہداء کے مبارک جسموں کے لئے کفن ودفن کا انتظام کیا۔ ۔ ۔ ۔ یزیدیوں کا قافلہ شہدائے کربلا کے سروں سمیت اہلِ بیت کو لے کر ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچ گیا،ابن زیاد نے امام عالی مقام کے سرِ مقدس کی بے حرمتی کی اور لشکر کو اہلِ بیت سمیت یزید کے پاس دمشق روانہ کردیا۔راستے میں ایک گرجہ گر کے قریب پڑاؤ کیا ، قافلے نے سامنے ایک پہاڑی کے اوپر سرخ رنگ میں ایک شعر لکھا ہوا دیکھا۔۔
ترجمہ: جس قوم نے حسین کو قتل کر دیا کیا وہ قیامت کے دن ان کے نانا جان کی شفاعت کی امید رکھ سکتی ہے۔ ۔؟
اہلِ قافلہ نے جب یہ شعر لکھا دیکھا تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، کچھ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ شعر یہاں کب اور کیسے لکھا گیا۔ ۔ ابھی سب حیرت میں تھے کہ پاس گرجے سے ایک پادری نکلا اور ان کے قریب آ یا تو قافلے والوں نے اس شعر کی طرف اشارہ کرکے کہا یہ شعر یہاں کب سے لکھا ہوا ہے۔ ؟ پادری نے کہا معلوم نہیں یہ میری پیدائش سے پہلے کا لکھا ہواہے ، ہمارے آباؤ اجداد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی پیدائش سے پہلے سے ہی اسے لکھاہو ا پایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہ بتانے کے لیے کہ ظالمو وہ گروہ تم میں سے ہوگا جو تمہیں کلمہ پڑھانے والے نبی ﷺ کے نواسے کو شہید کردے گا۔ ۔ راہب نے جب یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا یہ سر کس کا ہے، کیا ماجرا ہے اور یہ قافلہ کیساہے۔۔؟ جواب ملا یہ نبی ﷺ کے نواسے حسین ابن علی کا سر ہے۔ ۔ راہب لرز اٹھا ، بولا ظالمو جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہو اسی کے نواسے کو قتل کردیا۔ ۔راہب نے کہا میں آپ کو دس ہزار دینار دیتاہوں تم لوگ آج رات یہیں قیام کر لو اور ان سروں کی میزبانی مجھے کرنے دو ۔ ۔ لالچی یزیدی دس ہزار دینار کے بدلے رات گزارنے کے لئے راضی ہوگئے، پاکیزہ سر راہب کو ایک رات کے لئے دے دئیے۔ راہب نے اپنا گھر صاف کروایا اور اپنے گھر کی خواتین سے کہا کہ آپ ان پاک دامن خواتین کی خدمت کریں یہ نبی کی اولاد ہیں اور خود ایک کمرے کو صاف کرکے امام حسین کے پاکیزہ سر کو ایک صاف شفاف برتن میں رکھا ۔۔ صاف پانی سے دھویا خوشبو لگائی اور ساری رات ہاتھ باندھے کھڑا رہا اور زارو قطار روتارہااور یہ کہتا رہا ۔ ۔ ۔ ( اے حسین ! میں مسلمان نہیں ہوں ، آپ کے نانا کا کلمہ نہیں پڑھا پھر بھی یہ خوفناک منظر دیکھنے سے قاصر ہوں، یہ حریص اورذلیل ظالم لوگ کس بے دردی سے آپ کے خاندان کو ذبح کرکے بڑی بے پرواہی سے سفر کررہے ہیں انہیں احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کتنا بڑا جرم کیا )
ساری رات اس کے خاندان کی بیبیاں اہلِ بیت کی خدمت کرتی رہیں اور دعائیں لیتی رہیں۔ ۔ سرِ حسین بھی زبان حال سے دعائیں دیتے رہے۔ ۔ یکایک اس کی قسمت کا ستارہ چمکا آنکھوں سے کفر کے پردے اٹھ گئے اس نے کلمہ حق پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ ۔ چنانچہ صبح جب قافلہ روانہ ہوا تو وہ بھی ان کے ساتھ ہی ہو لیا، سفرکی مزلیں طے کرتاہوا یہ قافلہ یزید کے دربار میں داخل ہوا ۔ ۔ یزید پلید پہلے سے ہی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا ۔ ۔ سرِ حسین یزید کو جو مغرور انداز میں ہاتھ میں چھڑی لئے تخت پہ بیٹھا تھا پیش کردیاگیا ۔ ۔امام کے سر مبارک کو دیکھ کر یزید کے تن میں آگ لگ گئی اس نے چھڑی امام حسین کے دندان مبارک پر ماری اور غصے سے بولا تم اپنے انجام کو پہنچ گئے، دربار میں حضور ﷺ کے ایک بزرگ صحابی حضرت ابو برزہ بھی موجود تھے جو یزید کے اس حرکت پر چپ ناں رہ سکے اور یزید کو ڈانٹ کر فرمانے لگے۔ ۔ ۔ ۔ظالم ! اس گستاخی اور بے ہودہ حرکت سے باز آجا ،میں نے خود آنحضرت ﷺ کو ان ہونٹون کو بار بار چومتے دیکھا ہے۔ ۔یزید سے سچ برداشت ناں ہوا اس نے اس بزرگ صحابی کو اپنے دربار سے نکال دیا۔۔ ۔ ۔ دربارِ یزید میں روم کا ایک سفیر بھی موجود تھااس نے بتایا کہ میں حضرت موسیٰ کی نسل سے ہوں اور اب تل ستر (70) پشتیں گزر چکی ہیں اس کے باوجود حضرت موسیٰ کے امتی میری بے حد تعظیم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ اپنے نبی کے نواسے کو بے دردی سے قتل کردیا۔ ۔۔۔یزید نے خوب جشن منایا ابن زیاداور دوسرے ساتھیوں کو انعام و اکرام سے نوازا مگر جب اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے اور اس نے دیکھا کہ لوگوں کے تیور بدل رہے ہیں تو اس نے اپنی چال بدلی اور بڑی منافقت سے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا برا ہو ابنِ زیاد کا جس نے حسین کو قتل کیا میں نے تو زندہ پکڑ کر لانے کا کہا تھا ۔۔ مگر زمانہ گواہ ہے اس نے ابن سعد یا ابن ِ زیاد یا کسی اور کو کو ئی سزا ناں دی کیونکہ یہ سب اس کی چال تھی صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے جبکہ اندر سے وہ بہت خوش تھا ،یہ صرف اور صرف مگر مچھ کے آنسو تھے اور اس کی ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اس نے اہل ِ بیت کے قافلے کودمشق کے بازاروں میں گھمایا ، امام حسین اور دیگر شہداء کے سروں کو نیزون پر لگاکر جلوس کی شکل میں بازاروں میں گشت کرایا۔ ۔ روایت میں آتاہے حضرت امام حسین کے سر مبارک کو جب دمشق کے بازاروں میں لے کر جارہے تھے ایک مکان کے قریب سے گزرے تو وہاں ایک شخص قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا ۔
ترجمہ: کیا تو نے سوچا کہ اصحاب کہف یعنی غار والے لوگ ہماری عجیب نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے
روایت میں آتاہے اس وقت امام کا سرِ مبارک کو اللہ تعالی نے زبان عطا کی ۔ ۔ امام کا سر نیزے سے گھوما اور جس طرف سے آواز آرہی تھی اس طرف منہ کر کے امام نے فرمایا۔ ۔ (کہف اور رقیم کے واقعات پر تعجب کرنے والو! نواسہ رسول ﷺ کا سر کٹ کر نیزے پر سوا ر کیا جانا یہ کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر ہے اور زیادہ درد ناک ہے) اس واقعہ کے بعد مقدس قافلے کی بیبیوں کو حضرت زین العابدین کے ساتھ مدینہ منورہ روانہ کر دیا گیا۔ ۔ یہ لٹا ہوا قافلہ حضرت زین العابدین کی قیادت میں جب مدینہ پہنچا تو کہرام مچ گیا قیامت بپا ہوگئی یہ وہی گلیا ں اور بازار تھے جہاں جنت میں نوجوانوں کے سردار اپنے نانا کے کندھوں پہ سفر کیا کرتے تھے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
رؤ ف اُپل کے کالمز
-
ثواب کی فیکٹریاں
جمعہ 3 اپریل 2020
-
عائشہ بمقابلہ عائشہ
اتوار 6 اگست 2017
-
مصطفی کا کمال
بدھ 27 اپریل 2016
-
پاناما ہنگامہ
اتوار 17 اپریل 2016
-
امام کربلا سے مدینہ تک
ہفتہ 24 اکتوبر 2015
-
ٹاپ ٹین
پیر 14 ستمبر 2015
-
ایسے ہوتے ہیں قائد
جمعرات 25 دسمبر 2014
-
گو نواز گو
جمعہ 28 نومبر 2014
رؤ ف اُپل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.