چھوڑو آپی ہم تو یہ روز دیکھتے ہیں !

بدھ 28 مارچ 2018

Sadia Abbas

سعدیہ عباس

26مارچ 2108 ، دن کی شروعات ایسے ہوئی کہ تین دن لمبا ویک اینڈ گزار کر بھی دل نہ بھرا تھا ، چھٹی کرنے کو دل چاہا لیکن سوچا 150 بچوں کا مستقبل ہے اسے بنانے کی کوشش کر رہی ہوں تو کوتاہی برتنا اچھا نہیں ہے ،، اور ساتھ ہی ساتھ بطور نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریوں میں بھی کچھ کوتاہی برت چکی تھی تو سوچا اٹھو لڑکی اپنے کام پر لگ جاو۔ نارمل سا دن تھا ۔

ٹاون شپ کالج میں بطور کنٹریکٹ لیکچرار کی ذمہ داریاں نبھانے صبح آٹھ بجے جا پہنچی ۔ دل نہ جانے کیو ں بُجا بُجا سا تھا ۔ 10 بجے بی ا یس ماس کمیونیکیشن کے تیسرے سمیسٹر کے طلبہ و طالبات کوایڈورٹائزنگ اور پبلک ریلیشنز کا لیکچر دے کر سٹاف روم میں آئی ۔ بیٹھے بیٹھے 6 سے 7 نیوز ویب سائٹ پر ڈالیں ۔ ساڑھے گیارہ بچے اٹھی اور جوہر ٹاون میں موجود اُردو پوائنٹ کے دفتر میں بطور نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ایک اور کوشش کرنے چلی آئی ۔

(جاری ہے)

کچھ کھایا نہیں تھا رات سے ،تو سوچا آج گھر جلدی چلی جاوں گی لہذا رکشے والے انکل کو بلا لیا کہ تھوڑا وقت سے پہلے آجائیں ۔ 5:28منٹ پر دفتر سے نکل پڑی گھر جانے کو اور راستے سے ڈاکٹرز سوسائٹی میں کام کرنے والی دو دوستوں کو ساتھ لیا گھر جانے کو ۔ ٹھوکر سے کینال ویو گیٹ نمبر 2 پر پہنچے تو دیکھا پر سڑک پر جانے والی ہر گاڑی کا ڈرائیور اپنا بچاو کر رہا ہے ۔

رکشے والے انکل دیکھنے پہنچ گئے کہ دیکھوں کہ ہو کیا رہا ہے ۔ میں چلائی انکل چلیں میں نے جلدی گھر جانا ہے ، پر کیا پتہ تھا کہ آج جلدی گھر جانے میں دیر ہے ۔ انکل نے کہا رُکو ذرا دیکھنے تو دو۔ دیکھا کیا ایک نوجوان لڑکی سلیولیس کالے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے سڑک کے عین درمیان میں بغیر کسی خوف کے کہ وہ کسی گاڑی کے نیچے آجائے گی ، بھاگی چلی جا رہی تھی ۔

دل میں ٹیس اٹھی اور دل نے کہا رُکو اسے کہیں نہر میں کود نہ جائے ، کہیں کسی گاڑی کے نیچے نہ آ جائے ۔ رکشے سے اتری تو پورا لاہور لڑکی کو دیکھنے کے لیے کھڑا تھا ،ایک شخص ویڈیو بنا رہا تھا ، اسے جھڑکا کہ بند کرو اپنا کیمرہ ۔ لڑکی کے پیچھے اسے بچانے کے لیے بھاگی کہ ُرکو کیا ہوا تمہیں ۔ آو میں تمہاری مدد کرتی ہوں ۔ دیکھا تو میرے سے ہی خوف ذدہ ہو کر بھاگ گئی ۔

تب لگا کہ وہ مرنے کے لیے نہیں، انسانوں سے بھاگ رہی ہے ۔ 15 پر فوری کال کی ، ڈولفن پولیس کے کچھ نوجوان سیکنڈز کے اند رپہنچے ، لیکن وہ بھی ایک طرف ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کیا کریں ۔ غصہ آیا بولا سر آپ کیا کر رہے ہیں، روکیں اسے ۔ آفیسر نے کہا لڑکی ذات ہے ، لیڈی پولیس نہیں ہے ۔ میں نے کہا چلیں میں چلتی ہوں ، پھر دیکھا آفیسر میرا لحاظ کرتے ہوئے کہ لڑکی ہوں آرام آرام سے چل رہا تھا ، پھر چلائی میں، کہ بھاگیں جلدی اسے بچانا ہے ، آفیسر کی ہمت بڑھانے کے لیے خود ہی بھاگ پڑی ۔

آفیسر نے مدد، کی ٹریفک روکی اور میں لڑکی تک پہنچی ، اسے پکڑنے لگی تو وہ کپڑوں سے باہر ہو گئی کہ مجھے ہاتھ مت لگاو ، مجھے مت لے کر جاو ، مار دو مجھے ساتھ نہ لے کر جاو۔ جیسے تیسے ایک مرد حضرت کی مدد سے لڑکی کو اٹھانے میں کامیاب ہوئی اور کینال ویو گیٹ نمبر 2 کے پاس سڑک کے کنارے لے آئی ۔ بات کروں تو کہے کہ مجھے ہاتھ نہ لگاو، دور رہو میرے سے ۔

ایک شخص لڑکی کو پانی پلا رہا تھا ، دوسرا منہ میں پان ڈالے ہوئے اسے دلاسہ سے رہا تھا کہ ہم تمہارے بھائی ہیں ، تمہاری مدد کے لیے بیٹھے ہیں۔ لڑکی کو سڑک کے سائڈ پر لانے میں لڑکی آدھی برہنہ ہو گئی تھی ۔ ڈوپٹہ نکالا اس پر دیا اور اسے پُرسکون کرنے کی کوشش کرتے کرتے اسکے بیگ سے فون نکالا اور سامنے آنے والے پہلے ہی نمبر پر کال کی ، کسی ہاشم ذی کا نمبر تھا ، ہاشم نے فون نہیں اٹھایا۔

دوسرے نمبر پر کال کی تو کسی ذارا کا نمبر تھا ، ذارا نے تیسری بیل پر فون اٹھایا تو پوچھا کہ آپ کون ہیں اس نے کہا بریرہ کی بہن بات کر رہی ہوں ۔ اتنے میں بریرہ کا فون بند ہونے کو آگیا ۔ بہن کو اپنا نمبر فوری طور پر نوٹ کروایا کہ اس نمبر پر رابطہ کریں ۔ زارا نے فون کیا اور اپنے والد کا بتایا۔ بریرہ کے والد کا فون آیا تو ساری صورتحا ل سے آگاہ کیا ۔

والد صاحب نے کہا میری بیٹی کا خیال رکھنا میں 4گھنٹے میں بہاولنگر سے لاہور پہنچوں گا ، تب تک میری بیٹی کو اپنے گھر لے جاو یا پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 11 میں چھوڑآواور ہاسٹل انتظامیہ کا نمبر مجھے دے دینا ۔ اس اثنامیں بریرہ کے والدہ کی کال آئی ، سعدیہ بیٹی بہت بہت شکریہ مجھے ذارا نے سب بتا دیا ہے ۔ میری بیٹی کا خیال رکھنا اسکے والد آرہے ہیں۔

سات بج گئے ہیں پولیس کو کوئی نام ونشان نہیں ہے ۔ ڈولفن پولیس پاس کھڑی ہے کہ بریرہ کہیں جانے کے لیے مان جائے تو جان چھوٹے ۔ بریرہ ، میں کہیں نہیں جاوں گی سوائے اپنی ماں کے، اور ماں کا فون آیا تو بات بھی نہیں کر رہی ۔ پریشانی بڑھتی جا رہی تھی کہ آکر کہاں چھوڑوں اسے ۔ فون کی بیٹری ختم ہو رہی تھی ، فوری طور پر گھر بہن کو فون کر کے اطلاع دی کہ مجھے آنے میں دیر ہو جائے گی پریشان مت ہونا ، ماما کو بتا دینا۔

7 بجے مصطفی ٹاون پولیس اسٹیشن کی ایک گاڑی اور دو پولیس آفیسر آئے ، دھیان دئجیے گا کوئی لیڈی کانسٹیبل نہیں آئی ۔ اتنے میں اپنے ایک دوست کو مدد کے لیے بلایا اور گھر پر ابو اور بھائی کو فون کیا کہ یہ مسئلہ ہوا ہے، لڑکی کو پولیس اسٹیشن چھوڑنے جا رہی ہوں ۔ ابو اور بھائی سے صلواتیں سنائی کہ پاگل ہو تم مرتی ہے تو مر جائے ، تم کیوں اسکے معاملے میں پڑ رہی ہوں ۔

دوست آئے لڑکی کو منایا اور دوست کی گاڑی میں بٹھا کر اسے پولیس اسٹیشن چھوڑا۔ پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے بریرہ نے بتایا جو کہ اپنے حواس میں نہیں تھی کہ وہ میڈیکل کالج کی گولڈ میڈلسٹ ہے ۔ ایک راہ گیر جو کہ بریرہ کی مدد کرنے کے لیے رُکا تھا ، میرے دوست کے پاس آیاا سکا نام پوچھا اور فون نمبر لے کے جاتا رہا ۔ اسنے مڑ کر نہیں دیکھا کہ بریرہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے ۔

دوستوں کو شک ہوا کہ یہ لڑکا بھی ملا ہوا ہے ۔ پولیس اسٹیشن جانے پر معلوم ہوا کہ لڑکی کو ایک خاص نشہ آور دوا دی گئی تھی جسکی وجہ سے وہ اپنے حواس میں نہیں تھی ۔ لڑکی کو لیموں والا پانی پلایا گیا ، یاد رہے پولیس نے کوئی ایف آئی آر نہیں کاٹی ۔ میں پولیس اسٹیشن میں بھائی کا نتظار کر رہی تھی کہ وہ آئیں تو شائد کچھ کریں گے ۔ دونوں بھائی آئے ، بڑے بھائی صاحب نے کہا گاڑی میں جا کر بیٹھو۔

بھائی صاحب پولیس کے پاس گئے پوچھا کہ کوئی مدد ۔ پولیس نے کہا نہیں
آپکا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، آپ جائیں ، میں 9:10 منٹ پر گر آگئی ہوں ۔ لڑکی کی والدہ کی کال کہ میری بیٹی کہاں ہے ، آنٹی آپ روئیں مت ، وہ پولیس اسٹیشن میں ہے ۔ کہانی ختم !
گھر آئی بھائی صاحب کا ایک لمبا لیکچر ، پورا لاہور وہاں موجود تھا کسی نے مدد نہیں کی ، تم بھی مرنے دیتی اسے، تمہیں کیا پڑی تھی ۔

اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ہم کیا کرتے ۔ تمہاری شادی کرنی ہے کوئی غلط الزا م لگ جاتا تو کیا ہوتا، میں بھی سوچ میں کہ آخر کیا کر دیا میں اسکے لیے ، نہ بھی کرتی تو کیا ہو جاتا ؟
کیا لڑکی کے والد نے اسے بیچا تھا ، بقول بریرہ کے یہ میرے والد نہیں ہیں۔
پاس کھڑے آدمی کون سے ، جن سے وہ خوفزدہ تھی کہ مجھے لے کر مت جاو ، یہیں مار دو۔
کیا کبھی جان پاوں گی کہ جسکی مدد کی تھی وہ زندہ سلامت اپنے ماں باپ کے پاس چلی گئی یا نہیں ؟
جو جو بھی مدد کر سکتا تھا سب نے یہ کہا کہ جتنا کرنا تھا کر دیا ، لڑکی اچھی ہوتی تو ایسے کسی کے ہاتھ نہ چڑتی، ایسے نشہ نہ کرتی ۔


جسنے میرے دوست کا نام اور فون نمبر لیا تھا اسنے مڑ کر کیوں نہیں دیکھا ، وہ بریرہ کی مدد کرنے کے بہانے تماشائی کیوں بنا ہوا تھا ؟(لڑکے انتہائی خوبرو نوجوان تھااور کسی اچھے خاندان کا بھی لگتا تھا)۔
جان نہیں پائی کہ غلط کون ہے اور سہی کون ؟ میں نے غلط کیا کہ سہی کیا ۔
چھوٹے بھائی نے کہا آپی میں یونیورسٹی میں روز ایسے دیکھتا ہوں ، ہوتا رہتا ہے، تم کیوں پریشان ہوتی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :