میڈیا امن قاٸم کرنے کا موثر ذریعہ

پیر 21 دسمبر 2020

Sadia Nawaz

سعدیہ نواز

صحافت براۓ امن peace journalismشعبہ ابلغیات کا اہم موضوع ہے ( john Galtungاس شعبے کے بانی کہلا تے ہیں جنہوں نے ”امن سب کے لۓ"  کی بنیاد رکھی.قوموں کی تعمیر و ترقی میں صحافت جوُکردارادا کرتی ہے وہ کسی سمجھدار انسان سے مخفی نۂیں .صحافت ہر دور میں طاقتور با اثر اور متاثر کن حقیقت رہی ہے عوام میں غوروفکر کی صلاحیت ،اور احساسات کی ترجمانی کرنا اور مساُءل کو حل کرنے میں قوم کا ساتھ دینا صحافت کے ہی فراءض میں شامل ہے۔


امن و امان کے قیام میں حکومت کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے .امن کا تعلق محض تو تناؤ کے عدم وجود سے نہیں بلکہ اس کے لیے انصاف کا وجود بھی ضروری ہے ۔ معاشرے میں توازن رکھنے کے لیے مسائل اور مصائب کی نشاند دہی کے ساتھ ساتھ ہر مسئلے کے تمام فریقوں کے مؤقف کو سامنے رکھتے ہوئے امن وامان قائم رکھنے کے لیے میڈیا اہم کردار ادا کرتاہے۔

(جاری ہے)

اس لیے بجائے اس کے کہ نام نہاد اور طاقتور لوگوں کی آواز بنیں معاشرے میں امن کی صورتحال مدد نظر رکھتے ہوئے مظلوموں کی آواز بننا ہے ۔ تشدد جیسی فضولیا ت اور سنسنی خیز خبروں میں الجھنے کے بجائے ہر مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیں اور بات چیت کے ذریعے متاثرہ افراد کی آواز بنیں اور مسائل کا حل تجویز کریں۔
امن صحافت کا مقصد ہی خبر کا صحیح ہونا اس میں جھوٹ کا عنصر نہ ہو صحافی اپنا کام سچائ ایمانداری کی بنیاد پرکرے .لوگوں کو تازہ ترین خبروں سے آگاہ کیا جاےء ایسی معلومات اور اطلاعات فراہم کی جاےء جس کی انہں ضرورت ہو اور اس معلومات کی بنا پرلوگ اپنی زندگی سے کے کر سماج اور عدلیہ اور انتظامیہ کے بارے میں بہتر راےء قاءم کر سکےزمانہ حاضر میں میڈیا قوموں کی عروج اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتاہے اور سماج میں امن قائم رکھنے کے لیے عدلیہ اور انتظامیہ کے بعد میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے۔


امن کے لئے موثر ذریعہ ذرائع ابلاغ ہے اس لئے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ امن کی کوشش کیسے کی جاےءاور کون کون سے ایسے عوامل ہیں جو ہمیں امن کی جانب لے جانے میں اپنا کرارر بخوبی نبھا سکتے ہیں ۔اگر ریاست کو انتشار سے بچانا ہے تو کیا کرنا چاہیے جس سے اعتماد اور ملی یکجہتی بڑھے اس میں بڑا کردار میڈیا کا ہے تو کیا میڈیا امن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے امن صحافت پر یقینا بہت کام  ہوا جا رہا ہے۔


 پاکستانی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ایک رپورٹر اگر کراچی میں کسی امام بارگاہ کے باہر دھماکے کے بعد براہ راست کسی چینل کے ذریعے عوام کو بتا رہا ہو کہ'' کراچی میں امام بارگاہ پر حملہ جس میں ۵ شہید ۸ زخمی'' اس جملے کا اثر کیا ہو گا یہ ہمیں جاننا ہو گا اور ایسی تربیت کرنا ہو گی جس سے معاملے کی شدت کو کم سے کم کیا جا سکے اس کے اظہار کے بے شمار طریقے ہیں جس کی کمی اور کم علمی بہت زیادہ محسوس ہو رہی ہے ۔

اس کے ساتھ تصاویر کی اشاعت کا بھی معاملہ آتا ہے کیا ایسی خون آلود یا کہانی کو نامکمل بیان کرنے والی تصاویر دکھائی جانی ضروری ہیں جومسئلے کے حل میں بھی نہ معاون ثابت ہو سکیں نہ معاملے سلجھانے میں مدد کر سکے ۔
ایک تحقیق کے مطابق تصاویر کا اثر انسانی سوچ اور رویے پر الفاظ کی نسبت زیادہ گہرا پڑتاہے ا س پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ہے یہ تو طہ ہے کہ ایک تصور بیک وقت ہنسی ہے روتی ہے مسکراتی ہے یہ آپ پر منحصر کرتا ہے کہ اسے کیسے پیار اور امن کا نام دیں ۔

دوسرا یہ کہ ایسی تصاویر شائع کرنے سے پہلے متاثرہ شخص کے خاندان کے جذبات ہم سمجھ سکتے ہیں کیا۔۔؟
اس کے علاوہ ہمیں کہیں کہیں صحافت برائے امن کا عملی مظاہرہ بھی نظر آتا ہے جس میں پی .ٹی .وی پر دہشت گرد سوچ کے خاتمے کے لئے اشتہارات بنے اور چلائے گئے جن سے بچوں کو جُرم سے دور رہنے کا احساس ہو ا اور اس میں ضرب عضب کے بعد اشتہارات کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا جس میں زکوة و خیرات کے بارے میں بھی آگاہی دی گئی کہ کہیں یہ صدقات و خیرات ہمارے خلاف ہی تو استعمال نہیں ہو رہے اورصحافت برائے امن کی بہترین مثال ہمیں 16دسمبر 2014کے بعد نظر آئی جب آئی ایس پی آر نے آرمی پبلک سکول کے بچوں کی یاد میں ایک ترانہ بنایا(مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے) جسے میڈیا نے بہت عمدہ طریقے سے پیش کیا اور دنیا کو ایک واضع پیغام دیا کہ ہم امن کے شیدائی ہیں ۔

گنتی کے چند دن ایسے اشتہارات چلانا یا امن کا درس دینا ٹھیک ہے لیکن اس کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو گا ۔اس میں رپورٹر سے لے کر مالک تک اور عام قاری تک صحافت سے جڑے ہر شخص کو امن صحافت کے لیکچر دینے ہوں گے۔جس سے بدامنی ،انتشار ، سماجی برائیوں کے خاتمے میں مدد ملے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :