احتساب کا عمل اور کمزور ترجیحات

پیر 13 نومبر 2017

Salman Abid

سلمان عابد

کسی بھی معاشرے میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا مضبوط تصور جوابدہی یا احتساب کے عمل میں شفافیت کے بغیر ممکن نہیں ۔ جمہوری عمل کا تسلسل محض حکومت بنانے ، ووٹ حاصل کرنے اور اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ عمل ملک میں ایک منصفانہ اور حقیقی معنوں میں شفافیت کے نظام سے جڑا ہوا عمل ہے ۔اگر جمہوریت شفافیت یا جوابدہی کے عمل کو کمزور بنا کر یا اس میں سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر آگے بڑھا جائے گا تو خود جمہوریت کا عمل بھی اپنی ساکھ قائم نہیں کرسکتا۔

اگرچہ پاکستان میں سیاسی اور فوجی دونوں قیادتوں نے احتساب کے نعرے کو سیاسی بنیادوں پر کئی ادوار میں لگوایا ، لیکن ہر بار اس کے پیچھے نیک نیتی کم اور اپنی ذاتی و خاندانی بنیادوں پر مبنی مفادات او ربدنیتی کی سیاست زیادہ تھی ۔

(جاری ہے)

یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں احتساب کا عمل مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔
احتساب کے عمل کی کمزوری میں چار اہم عوامل کارفرمارہے ۔

اول احتساب کے عمل کو کمزور کرنے کے لیے سیاسی و فوجی حکمران طبقہ نے عملا اداروں کو کمزور کیا او ران کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا۔ دوئم احتساب کا عمل اگر کچھ آگے بڑھا تو اس کی مقصد حقیقی معنوں میں احتساب کرنا نہیں بلکہ اپنے سیاسی مخالفین یا کمزور طبقات کے خلاف اس احتساب کو بطور ” سیاسی ہتھیار “ استمعال کیا گیا ۔

سوئم حکمران طبقات اور ریاستی و حکومتی اداروں سمیت مختلف فریقین کے درمیان ایک ایسا گٹھ جوڑ قائم کیا گیا جس کا مقصد احتساب کے عمل کو کمزور کرکے ایک دوسرے کے مفادات اوربدعنوانی و کرپشن کو تحفظ فراہم کرنا تھا، اس کے لیے ایسی قانون سازی کی گئی جو اس حکمران طبقہ کے مفاد میں تھی ۔چہارم حکمران طبقہ سمیت مختلف فریقین جو احتساب کو اپنے لیے مشکل سمجھتے تھے انہوں نے ایک خاص مقصد اور فکر کی بنیاد پر یہ بیانیہ تشکیل دیا کہ اس ملک میں احتساب کے نعرے کے پیچھے جمہوریت دشمنی کارفرما ہے ۔


لوگوں کو یاد ہوگا لندن میں بیٹھ کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ )ن(کی قیادت نے ایک میثاق جمہوریت کے معاہدہ پر دستخط بھی کیے تھے ، اس میں ایک نقطہ اقتدار میں اکر منصفانہ، شفاف او ربلاتفریق احتساب کمیشن کا قیام اور اس پر عملدرآمد شامل تھا ۔ لیکن جمہوری حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے ہی نعروں اور وعدوں کی پاسداری کے خلاف کام کرنے کا مزاج رکھتے ہیں ۔

پانچ برس پیپلز پارٹی اور اب چار برس سے مسلم لیگ)ن(کی حکومت ہے ، لیکن دونوں مقبول جماعتوں نے احتساب کمیشن کے قیام کو پس پشت ڈال کر عملی طور پر ایک دوسرے کی کرپش، بدعنوانی اور لوٹ مار کی سیاست میں تحفظ دیا ۔یہ دونوں اقتدار میں شامل جماعتوں نے نہ تو احتساب کمیشن بنایا اور نہ ہی پہلے سے موجود ” قومی احتساب بیورو“ یعنی نیب کو فعال کیا ، یا اس میں جو خامیاں یا کمزوریاں تھیں اس کو دور کرکے اسی ادارے کی شفافیت کو یقینی بنایا گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملک کی حکمران جماعتیں اپنے مخالفین کے خلاف کرپشن او ربدعنوانی کی دہائی دیتی ہیں ، لیکن عملی طو رپر ا ن کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتیں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب خود حکمران طبقات کا دامن صاف اور شفاف نہ ہو وہ کیسے حقیقی احتساب کے عمل کو یقینی بناسکتی ہے ۔ پچھلے دنوں حکمران طبقہ نے ایک بار پھر دیگر سیاسی فریقین کی حمایت کے ساتھ ” احتساب کمیشن “ کے قیام کا بل پیش کیا ہے ۔

اس بل کا مقصد نیب کو ختم کرنا اور احتساب کمیشن کا قیام ہے ۔ نیب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ ایک انتقامی ادارہ ہے جس کا مقصد سیاسی دانوں کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانا ہے ۔سابق وزیر اعظم نواز شریف او ران کی جماعت کی توپوں کا رخ آج کل نیب کے خلاف ہے اور وہ بڑی شدت کے ساتھ اس ادارے کی ساکھ پر سوال اٹھارہے ہیں ۔حالانکہ اسی نیب کے سربراہ کا تقرر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی باہمی مشاورت سے ہوتا ہے ۔

لیکن ان کو لگتا ہے کہ اس ادارے لگام ان سے زیادہ کوئی اور پس پردہ طاقت ہے جن کے ہاتھ میں حقیقی طاقت ہے جو ان کے مفاد کے خلاف استعمال ہوتی ہے ۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقات ایسے مفلوج ، لاچار اور عدم اختیارات سمیت ایسے ادارے اور افراد چاہتا ہے جو قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں ان کے مفادات کی پاسداری کریں ۔ جب بھی اگر کوئی ادارہ احتساب کی بات کرتا ہے یا اس عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو ہم سیاسی انتقام کی دہائی دے کر احتساب کے عمل کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ)ن(ایم کیو ایم ، جے یو آئی اور اے این پی سمیت دیگر جماعتیں احتساب پر سیاست کرکے اس عمل کو بزور سیاسی طاقت روکنا چاہتی ہیں ۔ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پہلے ججوں اور جرنیلوں کا بھی احتساب کریں ۔نواز شریف شدت سے کہہ رہے ہیں کہ ججوں او رجرنیلوں کا احتساب کیونکر نہیں ہوسکتا۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس ملک میں جرنلیوں ، ججوں ،بیوروکریسی ، میڈیا ، سرمایہ دار، صنعت کار، کاروباری طبقہ سمیت سب کا احتساب ہونا چاہیے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جب کسی فریق کا احتساب کا عمل شروع ہو تو یہ درد اس کے پیٹ میں کیونکر اٹھتا ہے ، کہ پہلے اس کا نہیں فلاں کا احتساب کرو۔
جرنیلوں او رججوں کے احتساب کے لیے پہلے حکمران طبقہ کو اپنا مقدمہ شفاف انداز میں پیش کرنا چاہیے ۔ ایک کرپٹ اور بدعنوان حکومت کبھی بھی دوسرے طاقت ور طبقہ کا احتساب کیونکر کرے گی ۔ سب کو احتساب کے دائرہ کار میں لانا وقت کی ضرورت ہے ۔

کیونکہ یہاں کوئی شفاف نہیں اور سب کے دامن کسی نہ کسی شکل میں دھبوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔لیکن پہلے احتساب کے عمل میں خود حکومت اپنے آپ کو پیش کرے ، اس کے بعد وہ دوسروں طاقت ور طبقات کے احتساب کے بڑھیں گے تو سماج کی طاقت بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوگی ۔ ایک مسئلہ لوگوں یعنی عوام کا بھی ہے ۔ ہمیں احتساب کے عمل میں جذباتیت، دیوانگی اور بادشاہت پر مبنی اپنی پسند و ناپسند کے دائرہ کار سے باہر نکل کر شفاف نظام کے لیے بڑی جنگ لڑنی ہے ۔

آپ کا تعلق کسی سے بھی کتنا ہی عشق پر مبنی کیوں نہ ہو، لیکن کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست کی حمایت نہیں ہو نی چاہیے ۔
ایک بنیادی اصول یہ طے کرنا ہوگا کہ سیاست اور کرپشن یا بدعنوانی کے درمیان جو گٹھ جوڑ ہے اس کو تورنا ہوگا ۔ یہ عمل عملا ایک مافیا کی صورت اختیار کرگیا ہے جس سے ادارے اور پورا انتظامی ڈھانچہ کرپٹ ہوگیا ہے ۔میں اس نقطہ پر بار بار زور دیتا ہوں کہ معاشرے میں کرپشن ، بدعنوانی کے خلاف اور شفاف نظام کی حمایت میں ایک بڑی سیاسی او رسماجی تحریک کی ضرورت ہے ۔

یہ تحریک کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظر تعصب کے بغیر چلنی چاہیے ۔ ایسی تحریک میں ہماری نئی نسل اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔ کیونکہ اس ملک کو اگر محفوظ بنانا ہے تو یہ کام اب صرف ایک بڑی تعداد میں موجود نئی نسل ہی کرسکتی ہے ۔ اس نئی نسل کے پاس طاقت بھی ہے اور جوش بھی اور ان کی موثر شمولیت ہی کرپٹ اور بدعنوان لوگوں کو لگام دے سکتی ہے ۔


یہ جو دلیل حکمران طبقات سمیت مختلف فریقین کی جانب سے دی جاتی ہے کہ ہم کرپٹ نہیں بلکہ کرپشن کے نام پر اہل سیاست یا کسی اور کو بدنام کیا جارہا ہے ۔ کچھ دیرکے لیے یہ منطق مان لیں تو پھر سوال یہ ہے کہ اس ملک میں ماہانہ بنیادوں پر ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن کون کررہا ہے ۔ جو کررہا ہے اس کے خلاف حکمران طبقات کیونکر قدم نہیں اٹھاتے ۔

یہ ایک محض دھوکہ دہی ہے ، اصل میں یہ حکمرانی کا نظام کرپشن او ربدعنوانی کی بنیاد پر کھڑا ہے ۔ اس ملک کا ایک بڑا دانشور اور رائے عامہ بنانے والا طبقہ خود حکمرانوں کی بدعنوانی کے کھیل میں شریک ہوکر اس پر مجرمانہ پردہ ڈال کر ان جرائم کو تحفظ دیتا ہے ۔بالادست طبقہ لوٹ مار کے نام پر اس رائے عامہ بنانے والے طبقہ کو بھی اپنے گھناونے کھیل میں حصہ دار بنالیتے ہیں ۔


یہ جو اہل دانش بڑی شدت اور گلے پھاڑ کر کرپشن او ربدعنوانی کا بھاشن دیتے ہیں او رکہتے ہیں کہ جمہوری عمل کرپشن کے کھیل میں متاثر نہیں ہونا چاہیے ۔ ان سے یہ ضرور پچھا جانا چاہیے کہ کیا جمہوریت کرپشن او ربدعنوانی کے سائے میں تقویت حاصل کرسکتی ہے تو ہمارا جواب نفی میں ہے ۔ اسی طرح جب حکمرانی کا نظام او رادارہ جاتی بنیاد میں بدنیتی شامل ہوگی تو اس حکمران ، ریاستی طبقہ سے شفاف احتساب کی توقع بھی محض خوش فہمی کے سواکچھ نہیں ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :