2013ء کا کشمیر…!

جمعرات 16 جنوری 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

کسی بھی صورتحال سے نپٹنے یا اسکے بیان کے لئے اعدادوشمار کو ایک کارگر ہتھیار کے بطور استعمال کرنے کے عادی سیاست دانوں اور بڑے بابوٴں کی زبان میں 2013کے جموں و کشمیر کی بات کی جائے تو گئے سال ریاست کا ماحول پُر امن رہا۔شورش اور سیاسی غیر یقینیت کے شکار کسی علاقے کی منظر کشی مگر محض اعدادوشمار سے ممکن نہیں ہوتی ہے لہٰذا اعدادوشمار کی بجائے جموں و کشمیر کے زمینی حقائق کو پیمانہ بناکر صورتحال کا تجزیہکیا جائے تو پھر سیاسی افراتفری کی شکار اس ریاست میں گئے سال بہت زیادہ بدلاوٴ نہیں ہو پایا ہے۔گئے سال کے دوران سرکاری ذرائع نے، مقابلتاََ ،جنگجوئیانہ سرگرمیوں میں خاصی کمی ریکارڈ کرتے ہوئے اپنے سینے چوڑے کر دئے ہیں۔ اس تلخ اور زیادہ پریشان کن حقیقت سے لیکن خود سرکاری حلقوں کے لئے بھی انکار ممکن نہیں ہوا ہے کہ جنگجوئیانہ سرگرمیوں کی تعداد میں کمی ہونے کے باوجود سرکاری فورسز کی ہلاکتوں میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور یہ بھی کہ ریاست کی جنگجوئیانہ تحریک کے دوران ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ جب سال بھر میں مارے گئے جنگجووٴں اور سلامتی دستوں کے اہلکاروں کی تعداد تقریباََ برابر برابر ہے۔

(جاری ہے)

کئی سال سے محسوس ہو رہے متواتر بدلاوٴ کو جاری رکھتے ہوئے گئے سال نے کئی چیزوں کی ہیئت کو ضرور بدلتے دیکھا ہے لیکن ریاست کو درپیش مسائل کی حیثیت بدلنے کی،کہ جس سے اس بد نصیب خطہ کے لوگوں کو درپیش مسائل کے دائمی حل کا انتظام ہو پاتا،کوئی سبیل ہوتے دیکھنا 2013کے نصیب میں بھی نہیں تھا۔
اب جبکہ 2013رخصت ہو کر سالِ رفتہ ہو گیا ہے اس کی آخری شام تک اسکے ساتھ وابستہ رہنے والی اُمیدیں بھی ظاہر ہے کہ ختم ہو گئی ہیں۔تاہم اُمید پر دنیا قائم ہے لہٰذا کشمیری عوام بھی اس سے پہلے کی طرح ہی 2013کی گاڑی سے اُتر کر 2014کی گاڑی میں پھر انہی اُمیدوں کے ساتھ سوار ہو چکے ہیں کہ جن کے بر آنے کی آرزوئیں انہیں جان لیوا انتظار کراتی آرہی ہیں۔پھر کشمیری عوام کی یہ بھی ایک مجبوری ہے کہ انہیں نئے سال کے کلینڈر کے ساتھ ساتھ گئے برسوں کی جانب سے ”وراثت“میں ملتی رہی ”خدشات و تشویش“کی وہ گٹھری بھی قبول کرنا پڑتی ہے کہ جس پر لگی گانٹھ سال کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ڈھیلی پڑنے لگتی ہے اور عوام کے خدشات عملی طور ”خونین رقص“کرنے لگتے ہیں۔حالانکہ گئے سال کے دوران اس سے قبل کے برسوں کی طرح کشمیر کی سڑکوں پر وہ خونی رقص جاری نہ رہا کہ جس کے تصور سے بھی کمزور دل رکھنے والا عام آدمی دہشت زدہ ہو جاتا ہے تاہم جب ایک عام کشمیری گئے ماہ و سال کا حساب کرنے لگتا ہے تو اسے ایسا کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے کہ جسکی اس نے سیاسی معاملات سے لیکر انتظامی امورات تک توقع کی تھی اور وہ پوری بھی ہو گئی۔
نصف دہائی ہونے کو ہے کہ جب سے جموں و کشمیر کی مجموعی صورتحال میں غیر متوقع اور نمایاں تبدیلی محسوس کی جانے لگی ہے۔”آزادی“کے مطالبات کے اپنی جگہ بر قرار رہنے کے باوجود ”آزادی پسندوں کی بندوق“کے بہت حد تک خاموش ہو جانے نے ایک نئی صورتحال کو جنم دیا جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔سرکاری حلقوں کی جانب سے ”امن کی بحالی“کے بطور مشہور کرائی جا رہی اس صورتحال کو 2008سے2010تک کی غیر متوقع اور حیرانکن عوامی مزاحمت نے یکسر بدل دیا اور پھر اتنی ہی حیرانگی کے ساتھ 2011کا ”پُرامن“گذر ہوا۔سال 2012کی شروعات پر وادیٴ کشمیر کے لوگوں یا امورِ کشمیر کے ساتھ ”دلچسپی“رکھنے والوں کے سامنے یہ سب سے بڑا سوال تھا کہ آیا کئی سال کی افراتفری کے بعد جموں و کشمیر کو 2011میں جو” امن “نصیب ہوا تھا وہ اس سال بھی جاری رہ پائے گا یا نہیں۔ 2012کے اختتام پر سرکاری حلقوں کی جانب سے مذکورہ بالا سوال کے جواب میں ایک فخریہ ”ہاں“کی تشہیر کی اور ابھی گئے سال کے بارے میں بھی اس حلقے کا کچھ اسی طرح کا گمان ہے۔حالانکہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا کشمیر کے گذشتہ دو ایک سال کی صورتحال کو امن کی اصطلاح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟۔بحالیٴ امن و خوشحالی کی سُریلی صداوٴں کے بیچ گذرے ان سال ہائے رفتہ کے دوران ابھرنے والی کشمیر کی تصویر بلا شبہ مقابلتاََ خوشنما ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس پر نہ صرف خونِ ناحق کے دبے نظر آئیں گے بلکہ یہ تصویر انسانی حقوق کی پامالی،تشددانہ واقعات،سیاسی کرپشن کی بد ترین مثالوں،مظلوموں کے آنسووٴں اور اس طرح کی دیگر بے انصافیوں کے ایسے نشانات سے بھری پڑی ہے کہ جنہیں سیاحوں کی کشمیر آمد سے متعلق رنگین لکیروں سے بنے گراف کے سائے میں دھندلا کیا گیا ہے۔
اگر جنگجوئیانہ حملوں اور گوریلاوٴں کی دیگر سرگرمیوں کو ہی معیار بنا کر بات کی جائے تو سرکار کی جانب سے اس حوالے سے نیچے جارہے گراف کی نمائش کے با وجود بھی2013کوپُر امن سال کہنیپر حرف آتا ہے۔حالانکہ عوامی بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آنے کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ گئے سال کو پُر امن قرار دینے کا جواز پاتے ہیں لیکن خود پولس اور سکیورٹی کے دیگر اداروں کا یہ کہنا بھی زیر نظر رکھنا ہوگا کہ جنگجووٴں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلیکرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کو ٹارگٹ بنایا ہے ۔پھر دلچسپی کی بات یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر میں جنگجوئیت کے محاذ پر آئی تبدیلی نئی نہیں ہے بلکہ جنگجووٴں کی طاقت میں انتہائی درجے کی کمی کئی سال پہلے سے ایک متواتر عمل کے بطور دیکھا جا رہا ہے۔یہاں یہ بحث مقصود نہیں ہے کہ اس صورتحال کی وجہ پاکستان کی بدلی ”کشمیر پالیسی“ہے ،لوگوں کا تشدد سے اُکتا جانا یا پھر سرحد کی تار بندی سے لیکر سکیورٹی ایجنسیوں کی اپنائی گئی پالسیوں تک کے کئی خاص اقدامات لیکن یہ بات طے ہے کہ2012میں کشمیر میں جنگجووٴں کا وجود اخباری بیانوں تک محدود ہونے لگا تھا اور سکیورٹی فورسز پوری طرح دستِ بالا حاصل کرنے پر فخر کرنے لگے تھے۔
حالانکہ سکیورٹی سے وابستہ اداروں کو اب بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے جنگجوئیت کو تقریباََ ختم کر دیا ہے لیکن گئے سال کی شروعات سے لیکر اخیر تک کی صورتحال اس دعویداری پر مہرِ تصدیق ثبت نہیں کر پائی ہے۔جیسا کہ جموں و کشمیر پولس کے چیف اشوک پرساد کہتے ہیں کہ ریاست میں جنگجوئیت شروع ہونے کے بعد سے ابھی تک گئے سال میں تشددانہ واقعات سب سے کم درج ہوئے ہیں۔انکا بیان ہے کہ پولس اور سکیورٹی کے دیگر اداروں نے جنگجووٴں کو بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے دور دھکیل کر انسے وہیں جاکر نپٹنے کو اپنی حکمت عملی بناکر کام کیا تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور ”کسی“کو انہیں بہکا کر حالات کو خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔لیکن پولس کی اس ”احتیاط“کے با وجود بھی جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع کے گاگرن نامی مقام پر سی آر پی ایف نے چار نوجوانوں کو یوں بے دردی سے ختم کر دیا کہ جس پر سرکار یا اسکا کوئی بھی ادارہ کوئی دلیل پیش نہ کر سکا۔اسی طرح جموں کے گول علاقہ میں قران کی بے حرمتی کے ایک دل آزار واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والے سادہ لوح لوگوں پر جس بے دردی کے ساتھ گولیاں برسا کر کم از کم چار افراد کو موقعہ پر ہی جاں بحق کر دیا گیا اُس نے بھی ریاست میں انسانی خون کے اب بھی بہت ”سستا“ہونے اور انسانوں کو حاصل حقوق کی اصل کہانی بیان کی ہے۔
جنگجووٴں کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کرنے سے متعلق پولس اور دیگر سرکاری ذرائع نے 2012میں بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا جسکا مطلب یہ ہے کہ فورسز کا زور مزید بڑھ رہا ہے اور جنگجووٴں کو مسلسل پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔لیکن جب خود پولس چیف ہی یہ بھی کہیں کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں ملی ٹینسی کے واقعات میں 30فیصد کمی تو ہوئی ہے لیکن خوف ابھی قائم ہے اور چلینج ابھی باقی ہے تو معاملات کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا ہے۔پھر یہ بات بھی کسی دلچسپی سے کم نہیں ہے کہ جنگجوئیانہ واقعات میں کمی آنے کے باوجود بھی پولس اور دیگر سرکاری فورسز کے جانی نقصان میں کافی اضافہ ہوا ہے۔یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ امسال جنگجووٴں اور سرکاری اہلکاروں کی نعشوں کا شمار تقریباََ برابر برابر رہا ہے جو کہ سرکاری اداروں کے لئے اپنے آپ میں ایک پریشان کر دینے والی بات ہونی چاہیئے اور ہے بھی جیسا کہ پولس چیف سے لیکر دیگر اعلیٰ حفاظتی حکام تک سبھی نے وقت وقت پر کہا ہے کہ جنگجووٴں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کر دی ہے۔سرکاری ذرائع سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق گئے سال کے دوران 2012کے مقابلے میں 119کی جگہ63جنگجو مارے گئے ہیں۔اس فرق کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ جنگجووٴں کی کل تعداد ہی کم ہوگئی ہے لہٰذا ظاہر ہے کہ فورسز کی گولیاں بھی مقابلتاََ کم ہی لڑاکووٴں کو لگی ہیں لیکن جب جنگجووٴں کے ہتھے چڑھنے والے سرکاری اہلکاروں کی تعداد 47سے 61پہنچ گئی ہو تو معاملہ معنیٰ خیز بھی اور دلچسپ بھی بن جاتا ہے۔خود سکیورٹی کے کئی اعلیٰ افسروں کا ماننا ہے کہ گئے سال کی شروعات پر انہوں نے یہ اندازہ بھی نہیں لگایا تھا کہ جنگجووٴں کے کئی سال پہلے جارحانہ قوت کھو دینے کے با وجود بھی وہ اس طرح کا پلٹ وار کرنے کی پوزیشن میں ہونگے لیکن انہوں نے حیران کر ہی دیا۔
پارلیمنٹ حملے کے ملزم افضل گورو کو ایک خفیہ اور خاموش آپریشن کے تحت تختہٴ دار پر لٹکائے جانے کے واقعہ کے بعد ہی وادیٴ کشمیر میں ایسا لگا کہ جیسے خاموش ہو چکے جنگجووٴں نے اچانک ہی جُھر جُھری لیکر اپنی ”موجودگی کا احساس“کرانے کا فیصلہ لے لیا ہو۔
افضل گورو کی پھانسی کے واقعہ کے ماہ بھر بعد ہی13مارچ کو،جب وادیٴ کشمیر میں اس واقعہ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے جاری تھے،جنگجووٴں نے اُس وقت سکیورٹی گِرڈ پر سکتہ طاری کر دیا کہ جب سرینگر کے بمنہ علاقہ میں دن دہاڑے سی آر پی ایف کے ایک کیمپ پر حملہ ہو گیا۔اس حملے میں پانچ اہلکار ہلاک ہو گئے جبکہ دو حملہ آوروں کو بھی مار گرایا گیا۔6جنوری2010کے بعد،جب سرینگر کے ہی لالچوک علاقہ میں اس طرح کا حملہ ہوا تھا،یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا۔اس حملے کے بعد پیش آتے رہے واقعات سے کچھ دیر کے لئے ایسا لگنے لگا کہ جیسے وادی میں جنگجوئیت کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہو۔چناچہ بمنہ حملے کے ایک ماہ بعد 26اپریل کو شمالی کشمیر کے سوپور علاقہ اور پھر اسکے فوری بعد ہندوارہ میں زائد از نصف درجن پولس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا۔جنگجووٴں کی ہمت کی تب انتہا ہو گئی کہ جب وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دورہٴ ریاست سے ایک دن قبل سرینگر کے بائی پاس علاقہ میں اُنہوں نے دن دہاڑے ایک فوجی کانوائے کو یوں گھیرے میں لیا کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس فوجی جوان تب تک صورتحال کو ٹھیک سے سمجھ بھی نہ سکے کہ جب تک حملہ آور آٹھ جوانوں کا کام تمام کرنے کے علاوہ مزید 19کو شدید زخمی کر گئے تھے۔اس حملے کے کچھ ہی عرصہ کے بعد بائی پاس پر ہی نوگام کے قریب ہوئے حملے میں بی ایس ایف کا ایک اہلکار ہلاک اور دیگر کئی زخمی ہو ئے تھے جبکہ سال کے جاتے جاتے اسی علاقے میں سی آر پی ایف کے ایک افسراور پھر وسطی کشمیر کے چاڈورہ قصبہ ایک پولس افسر کو نزدیک سے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والے ان واقعات کو دیکھتے ہوئے بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پولس یا دیگر سکیورٹی ایجنسیاں اس بات پر ایک دوسرے کی پیٹ تھپتھپاتے نہیں تھکتی ہیں کہ انہوں نے تشدد کے گراف کو ریکارڈ حد تک کم کر دیا ہے تاہم ملی ٹینٹوں کے لئے اپنے حوصلے بلند بتانے کے لئے یہ بات کافی ہو سکتی ہے کہ تعداد میں کم دکھائی دینے کے با وجود بھی وہ اپنے اور سرکاری اہلکاروں کے جانی نقصان کو تقریباََ برابر کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے سرکاری اداروں کو اس اعتراف کے لئے مجبور کر دیا ہے کہ جنگجووٴں کی” حکمت عملی “میں تبدیلی آئی ہے۔
سالِ رفتہ ان حالات میں شروع ہوا تھا کہ جب ہندوستان اور پاکستان ،دونوں،کی قیادت عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ایسے میں مسئلہ کشمیر کے حوالے حال ہی شروع ہوئے سال کے دوران کوئی بہت بڑی پیشرفت کی توقع کرنا دانائی سے دور تھا لیکن ”بدلے حالات“میں بعض لوگوں کو یہ اندازہ تھا کہ دونوں کی دوستی میں خاصا نکھار آئے گا۔یہ اندازہ مگر محض ایک گمان ثابت ہوا اور دونوں پڑوسیوں کے درمیان ایسی کوئی بھی قربت قائم ہوتے دکھائی نہ دے سکی کہ جسکے بل پر مسئلہ کشمیر سے متعلق کسی پیشرفت کی توقع کشمیریوں کے پژ مردہ چہروں پر بشاشت بحال کر سکتی تھی۔حالانکہ پاکستان میں عرصہ ہوئے نواز شریف کی قیادت میں ایک منتخب اور مظبوط سرکار قائم ہو چکی ہے لیکن ہندوستان میں ابھی انتخابات کا انعقاد باقی ہے اور موجودہ سرکار پاکستان کے ساتھ اپنے یخ بستہ تعلقات کو گرم ہوا دینے کے لئے تیار تو دور خود کو فارغ بھی نہیں پاتی ہے۔چناچہ گئے سال کے دوران سرحدوں پر ایسی کشیدگی کا موحول رہا کہ جس نے کئی سال سے کامیابی کے ساتھ جاری جنگبندی کے عہدوقرار کو غیر یقینیت کا شکار کر کے حد بندی لکیر اور بین الاقوامی سرحد کے قریبی علاقوں کے مکینوں کو جان کی امان پانے کے لئے متفکر کر دیا ۔حالانکہ سال کے جاتے جاتے دونوں ممالک کے درمیان رینجرس اور بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرلز سطح کی چودہ سال بعد میٹنگ ہوئی جس میں سرحدوں پر سکون لوٹانے پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔
جیسا کہ پولس کو بھی اعتراف ہے کہ جنگجووٴں کی بدلی حکمت عملی اورتشددانہ واقعات میں آئی کمی نے جہاں ایک طرف اہلیانِ ریاست کو کسی حد تک سُستانے کا موقع فراہم کیا وہیں سرکاری انتظامیہ کے ستم ہا نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے جبکہ تمام تر سرکاری وعدوں کے با وجود صاف و شفاف انتظامیہ کا منھ تک نہ دیکھ پانے سے لوگ زبردست مایوس ہیں۔ایک طرف جہاں فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے ریاست کے سیاست دانوں کی جانب سے دہائیوں سے فوج کے خفیہ فنڈ سے رقومات حاصل کرتے رہنے کا دھماکہ خیز انکشاف کر کے کشمیری عوام کے سامنے پہلے ہی،مختلف وجوہات کے لئے،بے اعتبار ہو چکے عوامی نمائندوں کی پول کھول دی تو وہیں دوسری جانب آئے دنوں نِت نئے اور ایک سے بڑھ کر ایک سنسنی خیز اسکینڈلوں نے بے نقاب ہو کر عوام کو سکتے میں ڈالدیا۔چناچہ سرکاری انتظامیہ میں اقرباء پروری،بے ضابطگی اور بد نظمی کی انتہا تب ہو گئی کہ جب ریاست میں میڈیکل انجینرنگ اور دیگر پیشہ ورانہ اعلیٰ تعلیمی کورسوں کے لئے امیدواروں کے انتخاب سے متعلق ادارے کے سربراہ مشتاق پیر کو ایک بڑے اسکینڈل میں ملوث پاتے ہوئے یہ نا قابل یقین انکشاف سامنے آیا کہ مذکورہ نے میڈیکل کے امتحانی پرچوں کو کروڑوں روپے میں فروخت کر کے ایسے کئی طلباء کو سرکاری میڈیکل کالجوں میں بھرتی کرایا تھا کہ جو بارہویں جماعت کا امتحان تک کئی کئی سال تک پاس نہیں کر پائے تھے۔اس حوالے سے معلوم ہوا کہ مذکورہ افسر جس کسی بھی محکمہ میں تعینات رہے وہاں اُنہوں نے گھپلے کئے لیکن چونکہ اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک اُنکی پہنچ رہی ہے لہٰذا اُنکے خلاف کوئی کارروائی کرنے اور انکا قد کم کرنے کی بجائے اُنہیں نہ صرف ترقیوں سے نوازا جاتا رہا بلکہ نوکری سے سبکدوش ہونے کے بعد پھر سے بھرتی کر کے اُنہیں اعلیٰ اختیار والے اداروں کاانتظام سونپا گیا۔
انتظامی سطح پر ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو گئے سال میں بھی کوئی کامیابی ہاتھ نہ لگی کہ جسکے بل پر وہ خود کو کشمیری عوام کے سامنے ”بڑا لیڈر“منوانے کی اپنی آرزو پوری کر پاتے۔ریاست میں تعینات فوج کو حاصل بے پناہ اختیارات (افسپا)کو واپس کرانے کو لیکر وہ گذشتہ پانچ سال سے مسلسل سیاست کرتے آرہے ہیں لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملتی ہے بلکہ حالیہ دنوں میں فوجی سربراہ جنرل بکرم سنگھ نے ایک بار پھر افسپا کے خاتمہ کی مخالفت جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ریاست میں سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔جنرل سنگھ کے اسی بیان کو بنیاد بتا کر ایک علیٰحدگی پسند لیڈر کا کہنا ہے”جہاں سرکار کو اپنے وزیر اعلیٰ کے انتھک جتن کے با وجود ایک قانون میں ترمیم کرنے سے بھی بھونچال آنے کا خدشہ ستا رہا ہو،جہاں سید علی شاہ گیلانی کے جلسوں میں لاکھوں لوگوں کی شرکت کو ایک انجانے خوف کے بطور دیکھتے ہوئے اسی سال کے اس بوڑھے کو چند ہی دن کی رہائی کے بعد واپس پنجرے میں قید کر لیا جاتا ہو اور جہاں فیس بُک اور اس طرح کی ویب سائٹوں پر یوں نظر رکھی جا رہی ہو کہ جیسے سرکار کی نظر ہٹتے ہی کشمیری نوجوان ان ویب سائٹوں پر ہی بم پھوڈ دیں گے…وہاں آپ کس بدلاوٴ کی بات کرتے ہیں امن تو دور کا معاملہ ہے“۔اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نوجوان کا کہنا ہے”ہوسکتا ہے کہ سرکاری ادارے مختلف واقعات کا گراف بناکر صورتحال کے بارے میں اپنے حساب سے بہتری یا ابتری ماپتے ہوں لیکن عام لوگوں کے لئے کشمیر میں ابھی بہت کچھ نہیں بدلا ہے“۔وہ کہتے ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیر کی پریشانی کو کسی بھی طرح ٹھکانے نہیں لگایا جاتا ہے کشمیر میں امن کے قائم ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ اپنے آپ میں ایک الگ مسئلہ بن کر موضوع بحث بنا رہے گا۔ایک اور نوجوان کا کہنا ہے”کشمیر کی سڑکوں پر چھائی خاموشی کئی وجوہات کا نتیجہ ہے جن میں سے ایک بڑی وجہ بیشترعلیٰحدگی پسندلیڈروں کا اپنی دنیا آباد کرنے میں مست ہونا اورلوگوں کاان لیڈروں سے ناراض ہونا ہے“۔وہ کہتے ہیں”آپ دیکھ چکے ہیں کہ جب سید گیلانی کو چند ہی دن کے لئے رہا کیا گیا تو لاکھوں لوگ کیسے انکے طواف کرنے لگے،انہیں چھوڑ دیا جائے یا کشمیریوں کو انکے علاوہ ایک ایسا لیڈر ملے کہ جس پر وہ بھروسہ کرتے ہوں تو وہ صورتحال بدل جائے گی کہ جسکے بل پر کشمیر کو خاموش اور پُر امن قرار دیا جا رہا ہے“۔فی الحال نہ سید گیلانی ہی رہا ہیں اور نہ ہی کشمیریوں کو اُن جیسا کوئی اور بھروسے مند دستیاب…سرکار کو تاہم امن کی تشہیر کا جواز دستیاب ہے اور کشمیر میں” امن “قائم ہے!!!(بشکریہ عالمی سہارا)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :