آخر کب تک۔۔۔؟

جمعرات 17 ستمبر 2020

Shehr Yar

شہریار

دل میں ایک چبھن سی ہے اور طبیعت پر بوجھ بھی، شاید آئے روز وطن عزیز میں رونما ہونے والے اندوہناک واقعات طبعیت پر حاوی ہو چکے ہیں۔ یہ بات سوچ کر روح کانپ اٹھتی ہے کہ ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ اندھیری نگری میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے ہے جہاں انسان نہیں بلکہ انسانوں کی شکل میں درندے بستے ہیں۔ چند روز پہلے موٹروے پر ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس نے  پوری انسانیت کو افسردہ کردیا لیکن جب ذمہ داروں کی نشاندہی کا وقت آیا تو الزامات کی بارش شروع ہوگئی۔

کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں، ہر کوئی دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر دوسروں پر تنقید کرنے میں سرگرم ہے اورہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔ ہم واقعے کی مذمت کرکے شاید سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی لیکن ہر بار مظلوم  انصاف سے محروم رہتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسے میں مظلوم اپنی آنکھوں میں حسرت لیئے پورے ملک سے ایک ہی سوال کرتا ہے کہ آخر کب تک۔

۔۔۔۔؟آخر کب تک اس معاشرے میں اسی طرح انسانیت کی بے توقیری ہوتی رہے گی،آخر کب یہ سلسلہ رکے گا اور کب ملزمان کو سزا ہوگی۔ ہم من حیث القوم اور ہماری حکومت وقت اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
یاد رہے جب تک ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہیں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ہم بطور فرد اپنی ذمہ داری قبول کریں اور اس کے تدارک میں اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کریں۔

آخر کب تک ہم سسٹم اور ریاست کو قصور وار ٹھہراتے رہیں گے،ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو لوگ حکومت میں آتے ہیں انہیں ہم ہی ووٹ دیتے ہیں اور جو لوگ سسٹم میں ہیں ان کا تعلق بھی ہماری ہی قوم سے ہے۔ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ اس مسئلے کا سب سے مضبوط حل معاشرے کی اصلاح ہے جس کی ابتداء ہمیں خود سے کرنی ہوگی۔ آج ہم نے اگر اس معاشرے میں انسانیت کے وقار کو سلامت رکھنا ہے تو ہمیں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ساتھ جنگ کرنی پڑے گی ہمیں نہ صرف اپنی بلکہ کہ اپنے اختیار کے مطابق باقی لوگوں کی کردار سازی کرنی پڑے گی اوراگر ہم واقعی اس اندھیری نگری کو انسانوں کا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بطور قوم اور بحیثیت فرد درج ذیل اقدامات اٹھانے ہوں گے۔


1۔ ڈگری یافتہ نہیں تربیت یافتہ قوم
ہمیں اب ڈگری یافتہ قوم سے زیادہ تربیت یافتہ قوم چاہیئے۔ بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام تربیت نہیں دے سکا لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ والدین اور اساتذہ کو ذمہ داری لینی ہوگی اور آئندہ آنے والی نسل کے تحفظ کے لیئے انہیں تربیت فراہم کرنا ہوگی۔ہمیں اب اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو یہ بتانا ہوگا کہ ہماری اقدار کیا ہیں، ہماری حدود و قیود کیا ہیں، ہم کون ہیں اور ہمارا تشخص کیا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں ہمیں اب اپنے بچوں کی نگرانی خود کرنی ہوگی۔اب والدین کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے بچے کا ماحول کیسا ہے کہیں وہ اپنے ماحول سے کچھ غلط نہ سیکھ جائے۔اب اساتذہ کا بھی کام لیکچر دینے تک محدود نہیں رہا بلکہ اب اساتذہ کو بھی دیکھنا ہوگا کیا ان کے اسکول اور کمرہ جماعت میں ماحول کیسا ہے کہیں  کوئی بچہ غیر محفوظ تو نہیں ،کہیں کوئی بچہ بلیک میل تو نہیں ہو رہا ۔

بدقسمتی سے ہمارے اسکولوں کے اندر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام رائج ہے جس میں ایک بچہ جو طاقتور ہوتا ہے وہ دوسروں پر راج کرتا ہے ۔دراصل بچہ اسکول سے ہی  نظام عدل سے بیزار ہوجاتا ہے۔اب ہمارے اساتذہ اور والدین کو بھی اپنا رویہ درست رکھنا ہوگا کیونکہ بچہ ان کے عمل سے متاثر ہوتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب ہمیں اس معاشرتی سوچ کو خیرآباد کہنا ہوگا کہ جس میں عورت کے لیے جگہ تنگ ہے۔

خدارا جاگیئے۔۔۔
2۔آگاہی مہم
اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے میڈیا پروگرامز کے ذریعے آگاہی مہم کا آغاز کرے اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے مواد کو پرموٹ کیا جائے جس کے ذریعے نوجوان نسل کے اندر اخلاقیات اور عورتوں کے لیئے عزت پروان چڑھے۔اس ضمن میں حکومت وقت تعلیمی اداروں کے اندر ایسے اسپیکرز کے سیمینار منعقد کر سکتی ہے جن سے نوجوان نسل اور آئندہ آنے والی نسل کی تربیت ہو سکے۔

حکومت کو یہ چاہیے کہ وہ والدین کے لئے ایسے پروگرامز تشکیل دیں جن کے ذریعے والدین کو بچوں کی تربیت کرنے کا اگر سکھایا جائے معذرت کے ساتھ ہمارے معاشرے کے اکثر والدین اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرنے کے طریقوں سے آگاہ نہیں ہیں۔
3۔اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہمارے مذہب نے ہمیں سب کچھ سکھایا ہے لیکن ہم سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

ہم نے قرآن پاک کو قرأت اور اسلامی تعلیمات کو جمعہ کے خطبے تک محدود کردیا ہے۔ میری پوری قوم سے عاجزانہ درخواست ہے کہ خدارا اسلام میں دلچسپی لیں اور کچھ نہیں تو کم از کم اسلام کی سیکھائی اقدار کو تو سیکھ لیں تاکہ ہم بطور مسلمان اپنا تشخص قائم کر سکیں اور انسانیت کا وہ سبق سیکھ سکیں جو ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے۔یقین جانیئے دین وہ طاقت ہے کو انسان کو اندر سے نرم کرتی ہے اور اگر اس معاشرے کے لوگ ااندر سے نرم ہو گئے تو اس معاشرے کی اصلاح میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔


ہم پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا اور خود کو تبدیل کرنے کا ذمہ لینا ہوگا ورنہ اس معاشرے میں مزید بگاڑ آئے گا اور ہماری آئندہ نسلیں ایک غیر محفوظ معاشرے میں سانس لینے پر مجبور ہوں گی۔ جب تک قوم کے افراد ٹھیک نہیں ہوں گے اس وقت تک یہ سسٹم اور ریاست ٹھیک نہیں ہو سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :