قوم کی بیٹی

پیر 30 نومبر 2020

Sohail Sharif

سہیل شریف

اللہ تعالی نے ہمیں  بیٹی کی شکل میں ایک بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی جس کو بیٹی سے نوازتا ہے وہ اُس سے  بہت خوش ہوتا ہے۔ایک بچے کی پرورش میں والدین کے ساتھ  ساتھ  معاشرہ بھی اپنا قردار ادا کرتا ہے۔اگر معاشرہ بیٹی کو رحمت بنا کر دکھاے گا تو بچے مستقبل میں اس سبق کو لاگو کریں گے۔  لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس رحمت کو غلط طریقے سے دکھا رہا ہے۔

جس کا معاشرے کے بچوں پر برا اثر پڑھ رہا ہے۔ ہمارے پاس زندگی گزارنے کے بہترین طریقے ماجود ہے مگر پھر بھی ہم سب سے زیادہ گمرہ ہیں۔ سنتے آے ہے کہ ہم نام کے مسلمان ہیں ۔ یہاں تک بھی بات ٹھیک لگتی ۔ مگر میں کہوں گا ہم اب نام کے مسلمان بھی نہیں رہ گئے۔اب تو یہ حالات ہے کہ جہاں بھی دیکھوں کوئ نہ کوئ واقعہ دیکھنے کو ملتا ہے اورکوئ کچھ بولتا بھی نہیں۔

(جاری ہے)

بس عورت کا تماشا بنتا جا رہا ہے اور تماشاہی تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ کبھی ظلم کسی کی بیٹی پرتو کبھی کسی کی بہن پر یا پھر کبھی اس ظلم کا شکار کسی کی بیوی ہوتی ہے۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ظلم کرنے والے بھی اس معاشرے کے مرد ہے ۔ جن مردوں کو اللہ تعالی نے طاقت سے نوازا اورعورت کا محافظ بنا کر بھیجا، اس مرد نے اپنی طاقت عورت پر ہی آزمانہ شروع کر دی اورعورت کا محافظ بننے کی بجائے اُس کی تکلیف کی وجہ بن گیا۔


اللہ کے محبوبؐ فرماتے ہیں”بیٹیاں اللہ پاک کی رحمت ہرتی ہیں۔ یک مسلمان کے لیے اس سے بڑی خوشخبری کیا ہو سکتی کہ اللہ اُس کو بیٹی سے نوازے ۔ لیکن اج کے دور میں تو انسانیت ہی جیسے  ختم ہوتی جا رہی ہیں اور انسان اتنی تعلیم حاصل کر کے بھی جاہل بنتا جا رہا ہیں۔ جس بیتی کو اللہ کے محبوب نے اتنی عزت کا مکام دیا۔اب انسان اُس کی پیداش پے غم کا اظہار کرتے ہیں۔

اگر کوئ عورت بیٹی پیدا کرتی تو اُس پر ظلم کیا جاتا، باپ سر پیٹتا کہ میں کیسے اس کی پرورش کروں گا۔ بیٹی کے باپ کو اُس کی پیداہش کے وقت سے پریشانی ہونے لگتی کہ وہ اس کو معاشرے کے درندوں سے کیسے بچاے گا۔ وہ ماں جس کے ہاتھ میں اختیار ہی نہیں کہ وہ بیٹا پیدا کرے یا بیٹی اُس کو باتیں سنانا شروع کر دیتے۔ اس کو بعز اوقات گھر سے نکال دیا جاتا جیسے اس نے بہت بڑا جرم کر دیا ہو۔


بڑے خوبصورت انداز میں پورے واقعہ کو اک شعر میں بیان کیا ہیں کہ
رحمت بن کے اتری تھی کیوں زحمت بن گئی بیٹی
میرا جرم گناہ بتلا دو پوچھتی رہ گئی بیٹی
یہ سوال ہر اس عورت کا ہے جس کو مرد کمزور اور حکارت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ جس پر مرد اپنی ہر بات کو مُسلت کرتا ہے۔ ہم ایک آزاد ریاست ہیں۔ ہر بندے کو حق ہیں اپنے طریقے سے زندگی گزارے۔

لیکن پتہ نہیں کیوں ایسے لگتا ہے کہ جیسے معاشرے اور معاشرے کے قانون پر کسی نے پٹی باندھ دی ہو اور وہ کچھ بھی دیکھنے سے کاثر ہو۔ معاشرہ چاہے تو اِس کو سدھار بھی سکتا ہے ۔لیکن عورت کو ہمیشہ سے ہی برے لفظوں میں  بیان کیا گیا ہیں۔جس کی وج سے آج کے دور میں عورت کی عزت کم ہیں اور اگر کسی کے ہاں بیٹی پیادا ہو جاے تو وہ افسردہ ہو جاتا۔معاشرے کی پستہ  زینیت اور معاشرتی وسماجی رسم وراواج نے اس نا انصافی کو تخلیق کیا۔

بلکہ نہ صرف تخلیق کیا اِس کو لوگوں میں پھیلایا بھی گیا ۔اس معاشرے کو معاشرتی وسماجی رسم وراواج  سے نکل کربیٹی کو جائز حقوق دینا ہو گا۔۔کیونکہ اسی زہنی پستی  نے  بیٹی کو کم تر بنایا ہیں۔ یہ ہر انسان کا فرض ہے اِس کو ختم کرے ۔”بیٹیا ں قوم کی عزت ہوتی اور ان کو عزت دینا ہم سب کا فرض ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :