سیاسی خود غرضی اور ایک بہتر مستقبل

ہفتہ 5 دسمبر 2020

 Syed Mohammad Faraz Hussain

سید محمد فراز حسین

بچپن سے ہی ایک بات سنتے آرہے ہیں کہ بہت جلد وطن عزیز کے حالات بہتر ہو جائینگے، عوام میں جب علم عام ہوگا تو ہمارے سیاسی فرعونوں کی چھٹی ہو جائے گی لیکن اب تک ایسا ہو نا پایا۔ اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر کون سی ایسی وجہ ہے جو اس ملک کو ترقی نہیں کرنے دے رہی؟
 سوچا تو اس سوال کا جواب بھی مل گیا اور اس جواب سے مایوسی بھی بہت ہوئی۔

دراصل اس ملک میں ترقی نہ ہونے کی اصل وجہ جہالت نہیں بلکہ خود غرضی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال "پی۔ڈی۔ایم" کی تہریک ہے یعنی وہ لوگ جو کچھ ارثہ پہلے ایک دوسرے کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کی دھمکیاں دے رہے تھے آج وہی لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر جمہوریت کو بچانے نکلے ہیں، صرف اور صرف اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی مفادات کو بھول چکے ہیں، مایوسی ان فرضی لیڈران سے بھی نہیں ہے چونکہ ان کی کم ظرفی سے تو ہم پہلے ہی سے واقف تھے۔

(جاری ہے)

مایوسی تو عوام سے ہوتی ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی انہی ڈاکوؤں کو ووٹ دیتی ہے۔ اور اس کی وجہ صرف ذاتی مفادات اور خودغرضی ہے۔ اس معاشرے میں ہر شخص ملک بیچنے کو تیار ہے، کچھ کے لیے اس کی قیمت ایک سرکاری نوکری ہے، تو کچھ کے لیے ان پہ عائد ٹیکسز میں کٹوتی۔ پڑہے لکھے لوگ بھی دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کر تے، انہیں بھی اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے غلط فیصلے ملک کو کتنا نقصان پہنچا رہے ہیں۔


 70 سال سے لٹتی ہوئی یہ ریاست، ایک لمحے میں ٹھیک کرنا ممکن نہیں بلکہ اس ملک کو واپس کامیابی کے راستے پہ گامزن کرنے کے لیے ہم سب کو اپنے مفادات بھول کر ملکی مفادات کو فوقیت دینی ہوگی۔ اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ کامیابی کا راستہ آسان نہیں اور یہ وہ راستے ہے جو عظیم قربانیاں مانگتا ہے۔ اس قوم کو علم سے زیادہ غیرت کی ضرورت ہے، ان کے اندر اس احساس کو اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے کہ ملک کی ترقی درحقیقت انہی کی ترقی ہے۔

اگر ہم اپنی نسلوں کی ایسی تربیت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر اس ملک کو کامیابی کا سفر طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
شاید فیض احمد فیض صاحب کا بھی یہی خیال تھا جب انہوں نے اپنی غزل "کتے" لکھی اور یہ غزل آج  بھی سمجھ والوں کےلئے با مقصد اور بہت معنی خیز ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :