کشمیری ٹوپی ‎

منگل 6 اپریل 2021

Syed Tosif Abid

سید توصیف عابد

کورنا کا پھیلاو بڑھتا جا رہا ہے عالمی دنیا تیسری لہر سے نبرد آزما ہے پاکستان میں بھی اس کا پھیلاو تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے پچھلے کچھ دنوں میں  وزیراعظم پاکستان بھی کورنا کا شکار ہو گے وزیر اعظم کے ساتھ خاتون اول بھی کورونا کا شکار ہوئیں وزیراعظم کا کورونا مثبت آنے کے بعد پاکستان اور دنیا بھر سے خیریت کے پیغامات آنے لگے وزیر اعظم کی جلد صحتیابی کے لیے دعائیں اور تمنائیں ہونے لگی 20 مارچ کو بھارتی وزیر اعظم، پاکستان کے وزیر اعظم کی خیریت دریافت کرتے ہیں اور نیک تمناوں بھری ٹویٹ کرتے ہیں سفارتی اور تجارتی خشک سالی پر اسے بارش کا پہلا قطرہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ ایک دن کے وقفے کے بعد بھارتی وزیراعظم کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کو خط لکھا جاتا ہے اس طرح خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے وزیر اعظم پاکستان جوابا شکریہ ادا کرتے ہیں اسی خط و کتابت کے دوران ای-سی-سی کا اجلاس ہوتا ہے اجلاس میں رزاق داؤد صاجب انڈیا سے چینی اور کاٹن کی درآمد کی سفارش پیش کرتے ہہں اور اس وقت کے وزیر تجارت عمران خان اس کی منظوری دے دیتے ہیں کچھ ہی دیر میں جب اعلانیہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ چینی اور کاٹن کی درآمد کا فیصلہ کر لیا گیا ہے عوام پاکستان کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آتا ہے کہ اس سب میں مسلہ کشمیر کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے چنانچہ 29 مارچ کابینہ کے اجلاس میں یہ معاملہ زیر بحث آتے ہی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے وزیر تجارت عمران خان کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور سوال چھوڑ دیا کہ کیا وزیر اعظم بطور وزیر تجارت اس معاملے کے حساسیت سے لا علم رہےاور کیا مسلہ کشمیر حل ہو چکا ؟
گزشتہ حکومت کو مودی کا یار ہے غدار ہے کے القابات سے نوازا جاتا رہا اس وقت حالات اس نہج پر نہیں تھے آرٹیکل 370 اپنی جگہ پر موجود تھا کشمیر میں لاک ڈاون کی سی صورت حال نہیں تھی مگر پھر بھی کس قدر حساس معاملہ تھا آج جبکہ حالات اس کے بر عکس ہیں تو سفارت و تجارت کا فیصلہ غیر مشروط طور پر کیا گیا عوام کی نظر میں یہ ایک غلط فیصلہ تھا گو کہ اسے موخر کیا گیا مگر کشمیر کے معاملات اس سے جڑے ضرور ہیں  
انڈیا کے ساتھ تعلقات مسلہ کشمیر کے ساتھ مشروط ہیں مگر جب سے یہ خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا ہے کیا مسلہ کشمیر کے بارے میں سوچا گیا؟ کیا کشمیرویوں کو اعتماد میں لے کر یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کی گئ یقینا ایسا نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

عمران خان صاحب خود کو کشمیر کا سفیر کہلاتے ہیں کیا سفیر اپنے ملک کے غاصبوں کے سامنے اتنے کمزور پڑ جاتے ہیں کہ اپنا مقدمہ ہی بھول جاتے ہیں کابیینہ کے اجلاس کے بعد وزیر خارجہ نے ای سی سی کے فیصلے کو موخر کرنے کا خبر دی مگر جس بنیاد پر اس فیصلے پر تنقید کی جا رہی اس کے بارے کچھ ذکر نہ کیا وزیراعظم پاکستان کے مشیران اور ترجمان نے خوب گنگلوں سے مٹی جھاڑنے کا بیڑا اٹھایا ہے کہ عمران خان وزیر تجارت ہوتے ہوئے اور ہوتے ہیں اور بطور وزیراعظم وہ کچھ اور ہوتے ہیں ای سی سی میں اور الگ کیپ(ٹوپی) پہنتے ہیں اور وزیر اعظم ہوتے ہوئے الگ ہیٹ پہنتے ہیں ہماری وزیر اعظم سے ایک درخواست ہے کہ براہ کرم ایک دن کشمیری ٹوپی پہن کر کشمیر کے بارے میں ضرور سوچئیے گا ہو سکتا ہے مسلہ کشمیر ان کو سمجھ آسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :