
رشوت بیماری نہ مجبوری
بدھ 22 جون 2016

عمر خان جوزوی
(جاری ہے)
یہی غم میرے دوست کو اندر اندر سے کھائے جارہاتھا۔ اسی وجہ سے اس نے ڈرائیور جو ہمارے اس مہمان کی طرح گاؤں سے آیا تھا سے کہا کہ ان کے ساتھ معاملات جلدی جلدی نمٹا لو۔ اس ڈر سے کہ پستول والی سرکار کو کہیں خوف سے دل کا دورہ ہی نہ پڑ جائے۔ میں گاڑی سے اترا اور پولیس والوں سے اپنا تعارف کرایا۔ وہ بھی عام پولیس والوں کی طرح حدسے زیادہ شریف تھے۔ان کوپتہ تھاکہ ان کی موجودگی میں معاملات طے نہیں ہوسکیں گے۔ اس وجہ سے انہوں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ گاڑی میں بیٹھیں۔ ہم ڈرائیور سے گاڑی کے کاغذات چیک کرتے ہیں۔ ادھر وہ ڈرائیور ان کا بھی باپ نکلا۔ پستول صاحب کی طرح ڈرائیونگ لائسنس اور گاڑی کے دیگر کاغذات تو اس کے پاس تھے ہی نہیں اوپرسے 10 روپے کے پانچ پانچ نوٹ یعنی کل پچاس روپے بتی کی طرح گول کر کے پولیس اہلکار کی مٹھی میں بند کر دئیے۔ پولیس اہلکار نے رخ دوسری طرف مڑ کر مٹھی میں جب 10 ، 10 کے پانچ نوٹ دیکھے تو وہ یک دم چلائے اور فوراً میری طرف بڑھے۔ مٹھی میں 10, 10 کے نوٹ مجھے دکھاتے ہوئے ڈرائیورکی طرف اشارہ کرنے لگے۔ اس کودیکھو۔۔ اس کی شکل دیکھو ۔۔ شناختی کارڈ اس کے پاس ہے نہیں، لائسنس بھی نہیں اور گاڑی کے کاغذات توپتہ نہیں یہ کب کے گھر بھول کے آیا ہے اور پیسے کتنے دیتا ہے ۔۔ ؟دس کے بانچ نوٹ ۔وہ بھی بتی بناکے۔خیر پھر اس نے اس کو 100 روپے دئیے یا ڈیڑھ سو ہم وہاں سے چلے گئے۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ رشوت دینے والا رشوت لینے والے کو بہت دور سے پہنچانتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی ایسی خاصیت ضرور مشترک ہے جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے آشنا کر دیتی ہے۔ورنہ میراجیساکوئی ہوتاتووہ دن بھریاتوپولیس والے کے ساتھ بحث کرتایاپھران کامہمان بنتا۔ رشوت نے آج ہمارے اس معاشرے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے رشوت کے خاتمے کے کئی دعوے کئے لیکن سرکاری محکموں میں رشوت کی بڑھتی بیماری دیکھ کر لگتا ہے کہ اس موذی مرض کو ختم کرنا پی ٹی آئی والوں کے بھی بس کی بات نہیں کیونکہ ابھی تک رشوت ختم نہیں ہوئی البتہ ریٹ ضرور بڑھ گئے ہیں، پہلے جو لوگ سرعام رشوت لیتے تھے وہ اب خفیہ لے رہے ہیں اور جو ہزار پانچ سو لیتے تھے اب وہ پانچ سے دس ہزار لیتے ہیں۔ محکمہ مال سمیت ایسے کئی ادارے ہیں جہاں آج بھی رشوت کا بازار گرم ہے، رشوت کے معاملات سے ہمارے جیسے بے خبر لوگ آج اپنے جائز کاموں کیلئے بھی سرکاری اداروں اور دفاتر کے چکر پر چکر لگانے پر مجبور ہیں۔ رشوت کی بیماری نے اس ملک اور ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، جو لوگ رشوت کو زندگی کا لازمی حصہ بنائیں وہ پھر ترقی کی دوڑ میں آگے نکلنے کی بجائے تباہی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایک طرف ہم سود اور رشوت کو فروغ دینے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے دوسری طرف پھر ہم حالات کا رونا روتے ہیں۔ ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ اور اس کے پیارے رسول کے احکامات سے بغاوت کرنے والے لوگ مہینے کے 30 اور سال کے پورے 365 دن روتے ہی رہتے ہیں۔ حرام اور مردار کھانے سے انسان موٹا ضرور ہوتا ہوگا لیکن صحت مند، پرسکون اور کامیاب کبھی نہیں رہتا، جو لوگ حرام پر حرام کھانے کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں چہرے کا نور اور دل کا سکون ان سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے چہروں کو دیکھ کر بھی انسان کو ڈر اور خوف محسوس ہوتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ رشوت کے ساتھ پھر سکون کیلئے بھی در بدر پھرتے ہیں۔ ایک بار گاؤں جاتے ہوئے بٹگرام شہر میں ایک پولیس اہلکار سے میری ملاقات ہوئی۔ باتوں باتوں میں رشوت کی بات چلی تو اس نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار میں نے کسی سے 500 روپے رشوت لی، اتفاق سے اسی دن تھانے سے چھٹی پر مجھے گھر جانا ہوا، گھر پہنچا تو دیکھا کہ میری چھوٹی بیٹی جن سے میں بہت پیار کرتا تھا ۔درد اور بخار سے تڑپ رہی تھی اسی وقت ا س کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ پانچ سو روپے وہ اور پانچ سو اپنی جیب سے دے کر اس کیلئے دوائی لی۔مجھے اندازہ ہوگیاکہ رشوت لینے کاانجام کیاہوتاہے۔۔؟اسی وجہ سے اسی وقت توبہ کی کہ آئندہ ایک روپیہ بھی کسی سے رشوت نہیں لوں گا۔ اس کے بعد وہ دن اور آج کا دن میں نے رشوت لینا تو دور اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں۔ جن لوگوں کے اندر ایمان کا ایک ذرہ بھی ہو جب بھی وہ کوئی غلط قدم اٹھاتے ہیں تو اللہ ان کو راہ راست پر لانے کیلئے فوراً کوئی نہ کوئی اشارہ ضرور دیتا ہے۔ عقل مند اور کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس قسم کے اشاروں سے عبرت حاصل کر کے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جو لوگ سرکشی اور گمراہی میں حدیں پھلانگ دیتے ہیں وہ پھر تباہی اور بربادی کی دلدل میں دھنستے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم بھی دنیا کی حرص و لالچ میں رشوت اور سود سے رشتہ استوار کرکے تباہی و ناکامی کی قبر میں زندہ دفن ہو جائیں ہمیں اپنے رحیم و کریم رب کی طرف رجوع کرکے ان گناہوں سے ہمیشہ کیلئے توبہ تائب ہونا چاہیے۔لوگ رشوت دینے کو مجبوری سمجھ رہے ہیں کیونکہ اگر رشوت نہ دی جائے تو کام نہیں ہوتے لیکن اگر قبر و حشر کو سامنے رکھا جائے تو اس لعنت سے بچنا اور جان چھڑانا بھی بہت بڑی مجبوری ہے۔ سگریٹ، نسوار، چرس اور شراب کے نشے کو اگر چھوڑا جا سکتا ہے تو اس کو کیوں نہیں۔۔ ؟ جہنم کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے کہ سرکاری اہلکار و افسران ہوں یا عام لوگ۔ اس لعنت سے اسی دنیا میں ہی جان چھڑا دیں تاکہ جہنم کی آگ سے بچا جاسکے۔ دنیا کی یہ زندگی چند دن کی مہمانی یا میزبانی ہے۔ ہم سود اور رشوت لیں یا نہ۔ یہ دن تو پھر بھی گزر ہی جائیں گے لیکن اصل زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی۔ ایسے میں اگر ہمارے ہاتھ رشوت اور منہ سود سے کالا ہوگا تو پھر وہاں ہم کیاجواب دیں گے۔۔؟ اس لئے روز محشر سرشرم سے جھکانے کی بجائے بہتر ہے کہ ہم آج ہی رشوت اور سود سمیت تمام گناہوں اور برائیوں سے اپنے ہاتھ ہی اٹھا لیں۔ اللہ ہمیں ہر برائی سے بچائے۔۔۔۔ آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمر خان جوزوی کے کالمز
-
دینی مدارس کاموسم بہار
ہفتہ 19 فروری 2022
-
اصل ایوارڈ توعوام دیں گے
منگل 15 فروری 2022
-
5فروری۔۔یوم یکجہتی کشمیر؟
ہفتہ 5 فروری 2022
-
تبدیلی۔۔ہمیشہ یادرہے گی
جمعرات 3 فروری 2022
-
عوام کے اصل مجرم
جمعرات 27 جنوری 2022
-
ایک کالم بہنوں کے نام
جمعرات 20 جنوری 2022
-
مری میں انسانیت کاقتل
منگل 11 جنوری 2022
-
منی بجٹ۔۔عوام کامزیدامتحان نہ لیں
بدھ 5 جنوری 2022
عمر خان جوزوی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.