موروثی سیاست کے ذمہ دارکون ۔۔؟

جمعرات 9 نومبر 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

تھانہ کچہریوں کی سیاست سے توہم پہلے ہی واقف تھے کیونکہ اس ملک کے اندرتھانے اورکچہریاں سیاست کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ ان کے بغیرتوسیاست کاپہیہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتا۔۔بندہ سیاستدان ہواورتھانوں۔۔ کچہریوں میں اپنے مخالفین کونہ گھسیٹیں یہ توہوہی نہیں سکتا۔ماناکہ ایم این اے اورایم پی اے سمیت کسی بھی نمائندے کاکام عوام کی بلاتفریق خدمت ہے ۔

مگرانتہائی معذرت کے ساتھ ،،عوامی خدمت،،والی یہ کہانی اب بہت پرانی ہوچکی ہے ۔اب جولوگ عوام کے ووٹوں سے ایم این اے،ایم پی اے۔۔ناظم اوربلدیاتی ممبرمنتخب ہوتے ہیں ان کاکام عوام کی بلاتفریق خدمت نہیں بلکہ تھانہ کچہریوں کی سیاست اورمخالفین کوکسی نہ کسی طرح نشانہ بناناہوتاہے۔منتخب ممبران کی جانب سے سیاسی مخالفین کوقدم قدم پرنشانہ بنانے کی وجہ سے تو تھانہ کچہری کی سیاست سے پوری دنیا اورقوم خوب واقف اورآشناء ہے لیکن،، موروثی سیاست ،،بارے ہمارے سمیت اکثرعوام اورتقریباًآدھی دنیاکوآج بھی کچھ زیادہ علم نہیں ۔

(جاری ہے)

اس کی بڑی وجہ ،،موروثی سیاست،،کے ان الفاظ کوکبھی ہم نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ حالانکہ اگردیکھاجائے توتھانہ کچہری سے زیادہ ،،موروثی ،،کالفظ ہماری سیاست سے چمٹاہواہے اگریہ کہاجائے کہ ہماری سیاست ہی ،،موروثی،،کے ستون پرقائم ہے توبے جانہ ہوگا۔۔وارث کے پیٹ سے جنم لینے والے اس لفظ ،،موروثی ،،کواگرسیاست سے نکال دیاجائے توپھرہمارے پاس کچھ نہیں بچتا۔

کیونکہ ہماری ساری سیاست ہی ،،موروثی ،،یعنی وارثوں کے گردگھومتی ہے۔بلاول بھٹوسے لیکرمریم نوازاورمولانافضل الرحمن سے لیکرحمزہ شہبازتک ہمارے کئی بڑے بڑے نام نہاد لیڈر اوربے شمارنامی گرامی سیاستدان اسی ،،موروثی سیاست ،،کی پیدوارہے۔تھانہ کچہریوں کے ساتھ موروثی سیاست پربھی ہم دن میں ایک نہیں ہزاربارلعنت بھیجتے ہیں لیکن اس کے باوجود،،موروثی سیاست ،،کی افزائش کیلئے ہم کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

۔ہماری وجہ سے اب اس ملک میں ،،موروثی سیاستدانوں،،کی اتنی فصل اگ چکی ہے کہ جس سے جان چھڑانے کے لئے بھی اب مہینے اورسال نہیں صدیاں درکارہوں گی۔ ایک طرف ہم یہ رونارورہے ہیں کہ غریب گھروں کے چشم وچراغ آگے کیوں نہیں آتے۔۔؟ ظالم حکمرانوں اوربلاول بھٹواورمریم نوازجیسے شہزادوں کودیکھ کرہم ہروقت اپنے آپ کوکوستے ہوئے یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ کسی موچی۔

۔کسی نئی ۔۔کسی چوکیدار۔۔کسی ریڑھی بان اورکسی چھاپڑی فروش کاکوئی بیٹااس ملک کاصدر،وزیراعظم،وزیراورمشیرکیوں نہیں بنتا۔۔؟جبکہ دوسری طرف جیوے بھٹو۔۔جیوے نوازاورجیوے فضل الرحمن کے بغیرہمارااورکوئی کام ہی نہیں ۔۔دن ہویارات۔۔سردی ہویاگرمی۔۔جلسہ ہویاجلوس۔۔احتجاج ہویامظاہرہ ۔۔گھرہویاکوئی دفترہم جیوے بھٹو۔۔جیوے نوازاورجیوے فضل الرحمن کا وردکئے بغیر چین اورسکون سے نہیں رہ سکتے۔

۔ہم نے اپنے دل اوردماغ میں یہ بات بٹھادی ہے کہ بلاول بھٹوہوں گے توپیپلزپارٹی ہوگی ۔۔مریم نواز ہوں گی تون لیگ کانام باقی رہے گا ۔۔مولانافضل الرحمن ہوں گے توجے یوآئی سیاست میں اہم کرداراداکرسکے گی ۔اگریہ نہیں ہوں گے توملک میں پھرسیاست ہی نہیں ہوگی ۔۔ہماری اسی غلط فہمی نے ہمیں برسوں سے ،،موروثی سیاست ،، کے کالے بت کے غلام بنارکھے ہیں۔

یہ حقیقت جاننے کے باوجودکہ شخصیات اہمیت نہیں رکھتے اس کے باوجودہم شخصیات کی پوجاکرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کررہے ۔کسی دورمیں ذولفقارعلی بھٹوکوبھی پیپلزپارٹی کے لئے ناگزیرقراردیاجاتاہوگالیکن کیابھٹوکے جانے کے بعدپیپلزپارٹی ختم ہوئی یاسیاست کاپہیہ ایک منٹ کے لئے بھی کہیں رکا۔۔؟مولانامفتی محمودکوبھی کسی وقت میں جمعیت علمائے اسلام کی جان کہاجاتاہوگالیکن کیامفتی محمودکے جانے کے بعدجے یوآئی ذرہ بھی بے جان ہوئی۔

۔؟ بینظیربھٹوبھی کسی وقت میں پیپلزپارٹی کی شان تھی لیکن کیاان کی شہادت کے بعدپی پی پی ذرہ بھی گمنام ہوئیں ۔۔؟ماناکہ کامیاب سیاست اورپارٹی کوفعال بنانے کے لئے مولانافضل الرحمن جیسی زیرک شخصیت۔۔بلاول بھٹوجیسے نوجوان اورمریم نوازجیسے شریف لوگوں کوآگے لاناضروری ہے مگرکیا مولانافضل الرحمن جیسے عقل مند۔۔بلاول بھٹوجیسے نوجوان اورمریم نوازجیسے شریف لوگ غریبوں میں نہیں ۔

۔؟جوکام مولانافضل الرحمن ۔۔بلاول بھٹویامریم نوازکرتے ہیں وہ کام کیاکسی غریب سے نہیں لئے جاسکتے ۔۔؟کیااس ملک کے کسی غریب میں ملک کانظام چلانے کی اہلیت اورقابلیت نہیں ۔۔؟ملک وقوم پرجب بھی کوئی مشکل وقت آتاہے اس وقت توسب سے پہلے یہی غریب ہوتے ہیں ۔۔میدان۔۔ سیاست کاہو۔۔کرکٹ کا۔۔تعلیم کا۔۔صحافت کا۔۔عبادت کایاپھرجنگ کا۔۔قربانی دینے کے لئے تواس وقت پھرنہ بلاول بھٹوآگے ہوتے ہیں اورہی مریم نواز۔

۔اس وقت پھریہی غریب سینہ تان کرکھڑے ہوتے ہیں ۔۔آپ تاریخ اٹھاکردیکھیں ۔آپ کوہرمحاذاورجنگی جہازپرانہی غریب گھرانوں کے چشم وچراغ جان ہتھیلی پررکھ کرکھڑے دکھائی دیں گے۔۔ملک وقوم کے لئے جان لٹانے والے ایسے غریبوں کی موجودگی میں نوازشریف۔۔آصف علی زرداری۔۔ مولانافضل الرحمن ۔۔بلاول بھٹواورمریم نوازکوناگزیرقراردینایہ اس ملک اورقوم کے ساتھ بہت بڑاظلم ہے ۔

۔ہمیں سیاست سے ،،موروثیت ،،کایہ منحوس لفظ اب نکالناچاہئے۔۔یہ کہاں کاقانون اورکونساانصاف ہے کہ کسی سیاسی جماعت اورپارٹی کی آبیاری کے لئے خون غریب بہائے اورجب لیڈری کاوقت آئے توپھرمولانافضل الرحمن ۔۔بلاول بھٹواورمریم نوازکوجانشینی کے سرٹیفکیٹ جاری کئے جائیں ۔۔سیاسی پارٹیاں یہ کسی کے باپ کی ملکیت اورجاگیر نہیں ۔یہ عوام کی پارٹیاں ہوتی ہیں ۔

ان کی کامیابی کے لئے غریب عوام ہی قربانیاں دیتے ہیں ۔اس لئے ان پرپہلاحق بھی کسی وڈیرے۔۔جاگیرداراورسرمایہ دارکانہیں بلکہ انہی غریبوں کاہوناچاہئے۔نوازشریف کے بعدشہبازشریف،پھرمریم نواز،پھرحسن نواز۔۔ادھربینظیربھٹوکے بعدآصف علی زرداری پھربلاول بھٹو۔۔پھرآصفہ بھٹو۔۔اس طرح مفتی محمودپھرمولانافضل احمن پھرمولاناکاکوئی بیٹایہ کوئی طریقہ نہیں نہ ہی یہ کوئی جمہوریت ہے ۔

یہ آمریت سے بھی آگے ایک قسم کی بدترین آمریت ہے ۔۔سیاسی اجارہ داری کایہ کھیل اب ختم ہوناچاہئے ۔ہمارے نام نہادسیاستدان کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس ملک کی بھاگ دوڑایک دن کے لئے بھی کسی غریب کے ہاتھ میں آئے ۔۔اسی وجہ سے وہ ،،موروثی سیاست ،،کے خلاف ایک لفط بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔ایسے میں اس ملک کے عوام کواب خوداس کھیل اورتماشے کوختم کرنے کے لئے کرداراداکرناہوگا۔

موروثی سیاست کی یہ وباء اس ملک میں کسی اورنے نہیں پھیلائی ۔عوام نے خوداس کوپروان چڑھایا۔چاپلوسی اورضمیرفروشی کی آخری حدیں کراس کرکے وڈاسردارنکہ سردار۔۔بڑاخان چھوٹاخان۔۔بڑے صاحب اورچھوٹے صاحب کی اصطلاح اگرہم عام نہ کرتے توآج اس ملک میں سیاست اوربادشاہت چندخاندانوں کے گردکبھی نہ گھومتی۔مگرافسوس مالش اورپالش میں ہم اس قدرآگے گئے کہ اب سراٹھانابھی ہمارے لئے ممکن نہیں ۔

ہم اگرخانوں۔۔نوابوں۔۔سرداروں۔۔چوہدریوں۔۔رئیسوں اوروڈیروں کے بعدان کے بیٹوں کوکندھوں پرنہ اٹھاتے توآج موروثیت کے یہ جراثیم اس قدراس ملک میں کبھی نہ پھیلتے۔غلطیاں ہم نے کیں ۔سزااب ہمارے بچے بھگت رہے ہیں ۔اب ان جراثیموں کوختم کرنے کے لئے ہمیں ہی کچھ کرناہوگاکیونکہ کوئی اورنہیں ہم ہی اس وباء۔۔ظلم اورناانصافی کوفروغ دینے کے ذمہ دارہیں ۔اب بھی اگرہم نے اپنی آنکھیں نہ کھولیں توپھرہمارانام بھی مٹ جائے گاکیونکہ کردارہماراپہلے ہی بے کردارکردیاگیاہے۔ان سیاسی ظالموں کی توروزاول سے ہی یہ کوشش ہے کہ غریبوں کاکانٹاہی کسی طرح درمیان سے نکالاجائے تاکہ ان کولوٹ مارمیں مزیدآسانی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :