بے حس مسیحا‎

جمعرات 31 دسمبر 2020

Waseem Tariq

وسیم طارق

آدھی رات کا وقت تھا میں دنیا و جہاں سے بے نیاز خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی. ہاتھوں نے لاشعوری طور پر موبائل کی تلاش شروع کر دی اور جلد ہی وہ اس تک جا پہنچے. آدھی کھلی آنکھوں سے سکرین پر نگاہ ڈالی تو گاؤں کا ایک جانا پہچانا نمبر دیکھ کر ماتھا ٹھنکا اور بے آختیار یا اللہ خیر کے الفاظ نکلے کیونکہ رات کے اس پہر اس نمبر سے کال آنے کا مطلب ایمرجنسی تھا چند شدید بیمار لوگوں کے نام میرے ذہن پر گھومنے لگا کہ شاید کوئی داغ مفارقت دے گیا........

(جاری ہے)

سلام دعا کے بعد معلوم کرنے پہ پتہ چلا کہ یہ صاحب گاؤں سے ہمارے شہر آئے ہوئے ہیں ڈیلیوری کیس کے سلسلے میں اور سٹی ہسپتال والوں نے انھیں راولپنڈی ریفر کر دیا ہے ابھی وہ جاننا چاہ رہے تھے یہاں کوئی اور اچھا ہسپتال اگر  ہے تو وہاں مریض کو شفٹ کیا جا سکے کیونکہ اب ایک ایک لمحہ قیمتی تھا بچے کی جان کو خطرہ تھا اور راولپنڈی جانے میں دو گھنٹے لگنے تھے  جو بہت زیادہ تھے میں نے تھوڑی دیر تک رابطہ کرنے کا کہ کر فون بند کیا اور ڈائریکٹری سے شہر کے سب سے اچھے ہسپتال کا نمبر نکال کر ان سے رابطہ کیا لیکن میرا ذہن اس وقت ان گھر والوں کی بے بسی میں ڈوبا ہوا تھا جن کو ایک وقت پر دو دو جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے.

کافی دیر تک بیل ہونے کے بعد خدا خدا کر کے کسی نے فون اٹھایا میں نے اپنا مدعا بیان کیا اور جو پہلا سوال مجھ سے ہوا اس کی اذیت ہی ناقابل بیان تھی.. کیا آپ یہاں سے پہلے بھی چیک اپ کرواتے رہے ہیں اور مجھے بلکل بھی ایسے سوال کی توقع نہیں تھے ہم مالی فائدے کے لیے  اس حد تک گر سکتے ہیں یہ پہلی دفعہ مجھے محسوس ہوا تھا میں نے موصوف کو سمجھایا کہ یہ لوگ کافی دور سے یہاں اس وجہ سے آئے ہیں کیونکہ وہاں پر سرے سے کوئ سہولت ہی موجود نہیں ہے مریض کی حالت کافی نازک ہے اور زیادہ تاخیر نقصان دہ ہو سکتی ہے لیکن اپنی نیند کے دھرن تختہ ہونے پر شاید وہ صاحب پھٹ پڑے.

آپ کو اتنی سی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ہم صرف انھیں لوگوں کو ہسپتال داخل کرتے ہیں جن کا ریگولر چیک اپ ہوتا رہا ہو اس ہسپتال سے اور ساتھ ہی فون بند کر دیا گیا.اس غیر انسانی روئیے پر بہت دکھ اور ایسے معاشرے کا حصہ ہونے پر افسوس ہوا میں نے ڈائریکٹری سے ایک اور ہسپتال کا نمبر نکالا اور تیسری دفعہ نمبر ڈائیل کرنے پر کال ریسیو کی گئی اور ان صاحب کے کرخت لہجے نے ایک بات واضح کر دی کہ ان سے بھلائی کی امید رکھنا سراسر بے وقوفی ہے.

پہلی جگہ رابطہ کرنے کے بعد میں نے سوچا تھا کہ شاید وہ سب سے مشہور ہسپتال ہے اس وجہ سے وہاں سے ایسا رویہ دیکھنے کو ملا کیونکہ کم ظرف انسان عہدہ اور دولت ملنے پر فرعون بن بیٹھتا ہے اور ہر گزرتا لمحہ اس کی سفاکیت میں اضافہ کرتا جاتا ہے. فون پر موجود شخص کو میں نے کیس کی سنگینی سے آگاہ کیا تو اس کا بھی وہی سوال سن کر میں ساکت ہو گیا میرے ذہن میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آوازیں بلند ہونے لگیں.

میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا اور انسانیت کی خدمت کروں گا جیسے رٹے رٹائے جملے ہر سمت سے گونجنے لگے ہم اس اسلامی ملک کے باسی تھے جس کا دین دشمن کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی تلقین کرتا تھا. مجھے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ میں اس ہسپتال کے باہر کھڑے شخص کو کن الفاظ میں تسلی دوں اور بتاؤں کہ یہاں فرعونیت کا بول بالا ہے یہاں لوگوں کی جان دو ٹکے کے بھی برابر نہیں ہے.
وہ لوگ جو گاؤں سے شہر اس وجہ سے آئے تھے کہ کسی مسئلے سے بچا جا سکے ان کا شہر آنا ہی  مسئلہ بن چکا تھا.

انھیں اطلاع دینے کے لیے فون کیا کہ ابھی تک کوئی انتظام نہیں ہو سکا مزید انتظار کریں تو پتہ چلا کہ مریضہ کی حالت مزید بگڑنے پر وہ اسے چکوال لے کر جارہے ہیں.
دو گھنٹے کا سفر، پھر ایک ہسپتال سے دوسرے کے چکر اور پھر کسی مسیحا کی تلاش میں ایک اور شہر کی جانب دوڑ.
آپ ان کی بے بسی کا اندازہ کریں کہ انکو دو دو جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے لیکن ان کا مسیحا کہیں کھو گیا تھا جو ان کے دکھوں کی دوا کرتا...

شادی کے پندرہ سالوں کے بعد قدرت ان پر راضی ہوئی تھی اور انھوں نے جانے کیا کچھ حسین خواب اس ننھی جان سے جوڑ لیے تھے لیکن قدرت کی اپنی تدبیریں ہیں بسا اوقات وہ ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور کبھی کبھار ہم سمجھنا ہی نہیں چاہتے. لیکن وہی حقیقت ہوتی ہیں ان سے منہ نہیں موڑا جا سکتا.
ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال ایک شہر سے دوسرے شہر کسی مسیحا کی تلاش میں دوڑنے والی ماں نے چکوال کے گورنمنٹ ہسپتال میں اپنی ننھی کلی کو جنم دیا لیکن افسوس کہ وہ اسے بچا نہ سکی اورآپریشن میں زیادہ تاخیر کی وجہ سے وہ ننھی کلی کھل نہ سکی اور وقت سے بہت پہلے مرجھا گئی.
اس بچی کے بہت سے قاتل تھے ایسے نہ جانے کتنے قتل آئے روز ہمارے ارد گرد ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے کیونکہ اس ملک میں سب آزاد ہیں ہر وہ شخص جس کا کوئی تھوڑا سا بھی اثر و رسوخ ہو وہ آزاد ہے اور اس کے مطلب کی یہ صحیح  آزادی اسے اور کہاں مل سکتی ہے بھلا....؟؟ ؟
کونسی تعلیم اور کہاں کا قانون آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ آپ دو جانوں کو اس لیے مرنے کے لیے چھوڑ دیں کہ وہ آپ کے لیے کسی مالی فائدے کا باعث نہیں بنے اگر آپ تھوڑا سا عقل استعمال کر لیں تو آپکو اندازہ ہو کہ گاؤں میں کتنے فیصد حاملہ خواتین کا باقاعدگی کے ساتھ چیک اپ کروایا جاتا ہے اور اگر نہیں کروایا جاتا تو کیا اب اس لیے سب کو کسی نہ کسی ہسپتال سے فائل بنوانی چاہیے تا کہ وہ اپنے آنیوالے بچے کی زندگی کو بچا سکیں.
کب جا کر انسانی جان کی وقعت دولت سے زیادہ ہو گی کون ان مورکھوں کو بتائے گا کہ یہ سب کچھ ایک بلبلے کی طرح ہے جو ایک دم سے ختم ہو جائے گا پھر جو عدالت لگے گی وہاں کوئی عہدہ یا تعلق کام نہیں آئے گا.
اگر خدا نے آپ کو کسی صلاحیت سے نوازا ہے تو اسے انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کریں کیونکہ سب کو جواب دہ ہونا ہے اور اگر اس دن ایسے والدین کی آہ بھی لگ گئی آپکو جو پندرہ سالوں سے اولاد کے لیے ترسے ہوں اور صرف آپ کے گھٹیا اصولوں کی وجہ سے اس نعمت سے محروم رہ جائیں تو پھر آپ کا بچنا مشکل ہو جائے گا.


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :