قائد کی امانت

پیر 28 دسمبر 2020

Waseem Tariq

وسیم طارق

میں انھیں دیکھ کر بیک وقت حیران بھی ہوا تھا اور پریشان بھی...مگر میری پریشانی حیرانی سے زیادہ تھی اور ان کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میری پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ میں کیا  میرے سے آنیوالی پہلی نسلیں یعنی ہمارے آباؤ اجداد بھی یقینا اس چیز سے گھبراتے ہوں گے کیونکہ یہ چیز ہمارے وہم و گمان سے بھی پرے کی تھی اور اسی لیے ہم نے ان کی امانت کا بھی وہی حال کیا تھا کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ جس شخص نے ہمیں یہ امانت سونپی تھی وہ کونسا اب آ کر پوچھے گا کہ میری امانت کا کیا کیا؟
انھیں اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر میرا دل چاہا کہ یہاں سے جتنا جلدی ہو سکے بھاگ جاؤں لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی قدم اٹھاتا وہ میرے بالکل سامنے آ کھڑے ہوئے تھے اور میری جیسے سانسیں ہی رک گئیں تھیں.

میں دم بخود ہوئے منتظر تھا کہ ان کا سوال کیا ہو گا اور اگر وہ اپنی امانت سے متعلق پوچھ بیٹھے تو اس کا کیا جواب دوں گا میں... کیونکہ جو حال انکی امانت کا ہو چکا تھا وہ انھیں بتانے کے ہرگز قابل نہیں تھا.
اتنی ہلڑ بازی اور شوروغوغا کیوں ہے یہاں.
ان کے اس سوال پر میں چونکا اور ان کو بتانے کے لیے کوئی بہانہ تراشنا چاہا لیکن کیا بہانہ بن سکتا تھا حقیقت ان پر عیاں تھی....

آزادی کا دن ہوتا، یوم پاکستان ہوتا یا اس عظیم سلطنت کے بنانے والے قائد کا دن ہمارے لیے یہ محض ایک تفریح سے زیادہ کچھ نہیں تھا یا اس سے بڑھ کر ایک چھٹی کی خوشی..... کیونکہ یہ دن کس کی نسبت سے اور کیوں منائے جاتے ہیں ان کی تاریخ ہمیں کیا سکھاتی ہے یا ہمیں اس سے کیا کچھ سیکھنا چاہیے تھا یہ سب ہمیں ہمیشہ سے ہی فضول چیزیں نظر آتی تھیں اور ہم بھی ان سب چیزوں کو نظر انداز کر کے اپنی اپنی زندگی کی رنگینیوں کھوئے ہوئے تھے آج بھی اسی ملک کے بانی کا دن تھا اور اسی حوالے سے یہ تفریحی پارٹی چل رہی تھی کہ اچانک اس شخص کو دیکھ کر میں دم بخود رہ گیا تھا اور اب سے زیادہ مشکل مرحلہ ان کے سوالات کا جواب دینا تھا.

میری پیشانی سے پسینے کی بوندیں ٹپکنے لگیں تھیں میں ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور اب ان کی طرف سے پوچھے جانیوالے سوالوں کے انتظار میں تھا.
میں ندامت سے سر جھکائے کھڑا تھا کہ اچانک انھوں نے پوچھا... کیسا ہے میرا پاکستان؟
جو امانت میں تم لوگوں کے حوالے کر کے گیا تھا اس کا کیا کیا تم لوگوں نے...؟
میں جو اسی سوال سے ڈر رہا تھا  احساس شرمندگی سے بھر گیا.....

ہمارے لیے تو یہ سارے دن چاہے وہ یوم آزادی ہو یا یوم دفاع، بانی پاکستان کی پیدائش کا دن ہو یا وفات کا ایک چھٹی سے بڑھ کر کچھ نہیں تھے.... اور یہ سب کچھ صرف یہ نسل نہیں بلکہ ہم سے پہلے آنیوالی کئی نسلیں کرتی آ رہی تھیں ہاں ایک بات میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہماری یہ نسل کچھ زیادہ ہی ان چیزوں کو بھول گئی تھی.... اپنے اسلاف کی دی گئی قربانیاں جو شاید ہمارے لیے چند نمبروں کا نصاب تھیں ان کو بھلا کر ہم بہت آگے آ گئے تھے...

یہ پیارا ملک جو ہزاروں قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا ہمارے لیے بس ایک زمین کا قطعہ تھا جہاں ہم کچھ عرصہ زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں ہمارے آباؤ اجداد بھی ایسا ہی کرتے آئے تھے اور بدقسمتی سے ہم نوجوان جن پر حضرت قائداعظم کو فخر اور مان تھا وہ بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے تھے...نا جانے کیوں ہمیں وہ سب دکھ اور تکلیفیں ہماری اپنی کیوں نہیں لگتی تھیں.

بے لوث قربانیوںکی وہ داستانیں جنہیں مغرب والے نہیں بھولے تھے ہم بھول چکے تھے.
جو غلطیاں ہمارے بزرگوں سے ہوئی تھیں ہم ان کو سدھار کر اپنے ملک کو استحکام دینے کے بجائے دو کلاسیں فالتو پڑھ کر اپنے ہی ملک کی برائی کر کے خود کو ایک پڑھا لکھا فرد ثابت کرنے میں مصروف تھے. جن لوگوں نے زندگی میں کوئی ایک کام بھی اس ملک کی فلاح کے لیے تو کیا خود اپنے لیے  یا اس معاشرے کے لیے بھی نہیں کیا تھا وہ بھی آئے روز اس ملک کو خراب قرار دے رہے تھے اور یہ سب باتیں مجھے ان کہ اس سوال سے ہی یاد آئی تھیں.
کہ کیسا ہے میرا پاکستان؟
نا جانے کہاں سے ہزاروں خیالات  کہ اس ملک کے لیے میری کیا ذمہ داری بنتی ہے میں کیا کچھ کر سکتا ہوں میرے ذہن کے دریچوں سے ٹکرائے لیکن یہ آج سے پہلے کیوں نہیں ہوا...یہ ملک ہمارے لیے کتنا قیمتی ہے اس کا تھوڑا سا احساس مجھے ہوا تھا لیکن اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ تھا وہ اس سوال کے جواب کا تھا جس کہ وہ منتظر کھڑے تھے.....

اور میں نم آنکھیں لیے اپنی کم عقلی کا رونا رو رہا تھا مجھے وہ کٹی اور جلی ہوئی لاشیں نظر آ رہی تھیں جو اس ملک میں بسنے کی حسرت لیے راستے میں ہی فسادات کا شکار ہو گئے تھے... مجھے ان ماؤں بہنوں کی چیخ و پکار بھی واضح سنائی دے رہی تھی جن کی عزتیں تار تار کر دی گئیں اور اس سب کچھ کہ باوجود یہ ملک ہمارے لیے غیر اہم تھا.... ہم لوگ اس ملک میں رہ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر رہے ہیں اس ملک پر اور اگر یہ ملک چھوڑ کر کہیں چلے جاتے تو وہاں سینہ چوڑا کر کہ بتاتے کہ پاکستان میں کیا رکھا تھا جو وہاں رہتے اسی لیے تو چھوڑ کر آ گئے ہیں.
میں انھیں کیسے بتاتا کہ آپ کا دیا گیا پاکستان آپ جیسے مخلصوں کے ہاتھوں میں نہیں رہا...

حکمران کیا اقتدار کے پجاری ہیں کہ عوام ان سے زیادہ مطلب پرست.
جو ملک آپ نے مذہبی آزادی کے لیے حاصل کیا تھا اس میں مسلمانوں کو مسلمانوں سے ہی خطرہ ہے جو امن اور بھائی چارے کی فضا آپ نے قائم کی تھی وہ تو اس ملک کے قیام کے چند سالوں کے اندر ہی ختم ہو گئی تھی... اب تو غیرملکی سازشوں کا تو کیا خود اپنے ملک کے باسیوں نے صوبائیت کو ہوا دینے کا کام شروع کر دیا تھا...

خود کو اس ملک کا باسی سمجھنے کے بجائے ہر کوئی خود کا اپنی لسانی اور صوبائی بنیادوں پر پرکھتا تھا. یہ ملک ہمارے لیے اہم تھا مگر اس سے زیادہ اہمیت ہمارے نزدیک اپنی قوموں اور صوبوں کی تھی...
حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں شاید یہ بات بتانے پر وہ یقین دلاتے کہ انھیں اپنی فوج پر پورا یقین ہے کہ وہ اس ملک کا ہر لحاظ سے دفاع کر لیں گے لیکن انھیں یہ کیسے بتاتا کہ دشمن اس سازش میں بھی کامیاب ہو گیا ہے اور آئے دن فوج پر بھونکنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے.

ہیٹر لگے کمرے میں لحاف لپیٹے کافی کا مگ تھامے اب اس فوج کو اچھا برا بتانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں جن کی وجہ سے آج تک پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا ہوا ہے جو آئے روز اپنی جانیں اس وطن کی خاطر قربان کرتے آئے ہیں. لیکن ان لنڈے کے دانشوروں نے اس فوج کے خلاف بھی ملک کے اندر ہی ایک نیا محاذ کھول رکھا ہے جس کا دشمن کو بہت زیادہ فائدہ مل سکتا ہے.
یہ سبھی باتیں سننے اور اپنی دی گئی امانت کی اس قدر بے قدری پر یقینا ان کا دل خون کے آنسو رویا ہو گا.

جن جوانوں سے ان کو امیدیں وابستہ تھیں انھی کے حالات دیکھ کر وہ اس ملک کے مستقبل کا سوچتے رہے ہوں گے. ان کو جلی کٹی لاشوں نے بھی پکارا ہو گا کہ ہماری قربانیوں کی اس قدر بے قدری کیوں کی گئی اور یہ شرمندگی بھی انھیں ہماری وجہ سے ہی سہنی پڑی ہو گی لیکن وہ اس بات پر بھی خاموش ہی رہے ہوں گے کیونکہ اس کہ علاوہ ان کے پاس کوئی جواب ہی نہیں ہو گا.اپنے ملک کا یہ حال سن کر ان پر کیا گزری ہو گی یہ بات صرف وہ جانتے ہوں گے یا پھر وہ شخص جو کسی قیمتی چیز کو حاصل کرنے کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ وار دے اور اس کی صدیوں کے بعد حاصل کی گئی اس قیمتی چیز کا بھی وہی حال ہو جو اس ملک کا ہوا تھا یا دوسروں لفظوں میں ہم نے کیا تھا.
میں ان کو اتنا پریشان دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا دل میں پکا ارداہ کر لیا کہ اب کچھ بھی ہو جائے قائد کے اس ملک کی دل و جان سے حفاظت کریں گے کیونکہ ہمیں اپنی آنیوالی نسلوں کو ایک بہتر ملک دے کر جانا تھا.

ایک ایسا ملک جو بالکل قائداعظم کے خوابوں جیسا ہوتا جہاں قائد کے بنائے ہوئے اصولوںپر عمل کیا جاتا ہے جہاں سب لوگ ایک قوم بن کر رہتے... جہاں سب ملکی ترقی میں اس جذبے سے آگے بڑھتے جیسا جذبہ ملک کو حاصل کرنے کے لیے تھا اور ناجانے ایک دم سے یہ جذبے کہاں سے پیدا ہو گئے تھے... شاید ایسا اس وجہ سے تھا کہ میں انکو مطمئن کرنا چاہتا تھا یہ تسلیاں جو کہ اندر ہی اندر مجھے بھی جھوٹی تسلیاں ہی لگ رہی تھیں لیکن میں انھیں یوں پریشان بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا...

مگر اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا انھیں تسلی دیتا انھیں یقین دلاتا کہ ہم اپنے اس پیارے ملک کی قدر کریں گے ہمیں ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا احساس ہو گیا ہے وہ واپس مڑ ے اور چل دئیے میں انھیں آواز دے کر روکنا چاہتا تھا لیکن شرمندگی کے مارے میں اتنا بھی نہی کر سکا اور جو آخری رنجیدہ  آواز میرے  کانوں سے ٹکرائی تھی وہ تھی
"میرا پاکستان"
اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی.......!!!!!!!!!!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :