یاری کا دھاگہ

ہفتہ 3 مئی 2014

Yede Beza K Qalam Se

ید بیضاء کے قلم سے

دور کہیں ایک مینڈک پھدکتی چال میں رواں دواں تھا کہ راستے میں ایک چوہا بل کھود رہا تہا۔وہ تھوڑی مٹی نکالتا اور پھر اپنی موچھیں جھاڑتا۔مینڈک کو چوہے پر بڑا پیار آیا۔تھوڑا قریب گیا اور گنگنا کر پوچھا
اے۔۔کیا بولتا تو؟؟؟؟
کریں یاری؟؟؟؟
چوہے نے پہلے حیرت سے اس کو دیکھا پھر کچھ سوچنے کے بعد کہا
بھائی جی۔۔مشکل ہے۔پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اپنی سالوں کی دشمنی چل رہی ہے آنٹی بلی سے اور پھر میری اور آپکی رفتار میں فرق ہے۔

کبھی بھوکی بلی ملی اور راہ چلتے حملہ کیا تو میں تو بھاگ جاوٴں گا اور آپ خواہ مخواہ مارے جاوٴ گے
اور دوسرا یہ کہ ہماری جنس بھی مخالف ہے۔ نہ تو جنگل کا بادشاہ اس رشتے کو قبول کرے گا کہ اس کی مرضی کے خلاف جنگل میں کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔

(جاری ہے)

اور نہ ہی جنگل کا پوپ اس رشتے پر راضی ہو گا کہ بہر حال اس کی اور بادشاہ کی مرضی ایک جیسی ہی ہوتی ہے
تیسرا یہ کہ ہمارے قبیلوں کے دانشور بھی اس کو قبول نہیں کریں گے کہ ان کی دانشوری تو فریق مخالف پر بہتان تراشی ہوتی ہے اور ہم ایک ہو گئے تو فریق مخالف کون ہو گا؟
اور آخری یہ کہ ہماری تعلیم میں بہی بڑا فرق ہے۔

میں نے تاریخ عائشہ جلال اور سٹیفن کوہن کی پڑھی ہے جبکہ آپ نے تاریخ کے نام پر صرف سکول کی معاشرتی علوم پڑھی ہے
مینڈک بولا ارے چھوٹو عقل سے کام لو۔ہم ایسے ہی تھوڑی سر راہ گھومیں گے۔بھئی میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔میرے پاس ایک لمبا دھاگہ ہے۔ہم دونوں اس سے اپنی اپنی ایک ٹانگ باندھ لیتے ہیں۔جب بھی ایک کو دوسرے سے ملنے کا دل کرے گا تو تار ہلا لیا کریں گے اور پھر موقع دے کے ایک دوسرے کی طرف نکل پڑیں گے۔

۔چوہے کو آئیڈیا پسند آیا اس لیے دونوں نے اپنی اپنی ٹانگ سے دھاگہ باندہ لیا
لیکن زمانے کو خبر ہو گئی۔ پہلے پروھت گرجے۔ پھردانشور میدان میں آ گئے۔ اور آخرکار بادشاہ کو خبر ہو گئی۔ ابھی کوئی تدبیر سوچی جا رہی تہی کہ اس بیچ ایک دن مینڈک نے دھاگہ ہلایا۔چوہا بھی اداس تھا۔بل سے نکلا اوردوست کی طرف چل پڑا۔
کہ اچانک ایک باز نے آسمان سے غوطا لگایا اور چوہے کو اٹھا لیا
ادھر ابھی مینڈک دیکھ رہا تھا کہ اس کا دوست گیا۔


لیکن لمحوں میں وہ بھی اڑنے لگا۔باقی مینڈکوں نے حیرت سے پوچہا۔۔کہاں جی؟؟؟
چوہے کو تو باز لے گیا پر تو کیسے اڑ گیا۔
مینڈک نے آہ بھر کے کہا۔۔۔
میں یاری کے دھاگے میں گیا۔ دعا کرنا یارو
کہانی حامد میر پر حملے تک یاد آئی۔ کہ ہر جگہ کوئی نہ کوئی یاری کے دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ بس ایک چوہا اٹھانے کی دیر ہوتی ہے پھراس کے ساتھ جو جو بھی بندھا ہوتا ہے۔

سب اڑنے لگ پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی تو کھلاڑیوں کے ساتھ امپائر بھی اڑ جاتے ہیں اور تماشائیوں کا "تراہ" نکل جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کے بارے میں گمان ہوتا ہے کہ ابھی ابھی عمرے سے پلٹ کر آئے ہوں گے اور عقیدت مندوں نے ابھی ٹھیک سے ماتھے پر بوسہ بھی نہیں لیا ہوتا وہ مقدس بوسے کو ادھورا چھوڑ کر کسی ٹی وی چینل پر جلوہ افروز ہو جاتے ہیں۔
حامد میر پر کسی نے گولی چلائی تو اس کے بھائی نے آئی ایس آئی پر الزام لگا لیا۔

اب جوں ہی یہ الزام لگا، جیو نے اپنے سارے بدلے لینے شروع کر دئیے
اور ان دانشوروں کا اتوار بازار لگا لیا جو صرف میر شکیل الرحمن کی نظر میں دانشور ہیں۔ کیونکہ میر صاحب جیو کے باہر کسی کو دانشور سمجھنے کے روادار نہیں ہیں۔ اور نہ ہی کسی اور ٹی وی اینکر کا جیو پر بیپر لیا جاتا ہے۔ اب ان دانشوروں میں سے جو کل تک مذہب کے دوراغے بنے بیٹھے تھے انہوں نے اسلام کے آخری قلعے کے محافظوں سے استعفے طلب کیے۔

جو مذہبی کلاون تھے اور غالب کی فلم ان کی وجہ شہرت تھی انہوں نے خبر دی کہ حامد میر نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے۔ پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگاتے رہے۔ بھلا مرتا ہوا آدمی پاکستان زندہ آباد کے نعرے کیوں لگائے گا؟ اور پھر وہ چڑیا والے دانشور جو زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں سے لے کر کھیل کے میدان اور بین الاقوامی سیاست پر خود کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔

ان کی چڑیا نے کیا کیا کرشمے دکھائے کہ اللہ کی پناہ؟
ہم حلول کو قائل ہوتے تو ضرور کہتے کہ جیو کے سارے دانشوروں میں میر شکیل کی روح حلول کر چکی ہے۔ جیو کی بیٹ میں انڈین میڈیا بھی میدان میں اتر آیا۔ جبکہ حکومت کے بارے میں دو دن تک گمان ہونے لگا تھا کہ شاید اس کی بیٹری ختم ہو چکی ہے اور پھروہ پرانے سیلوں والے کھلونے کی طرح آہستہ آہستہ غوں غوں کرنے لگا۔

ادہر باقی ٹی وی چینلوں نے بھی آستین چڑھا لیے۔اور وہ سارے دانشور میدان میں آ گئے۔ جو تصوف کے عارفین تھے انہوں نے متصوفانہ انداز میں قوم کو خبر دی کہ ان کے اصلی مرشد کون ہیں۔ جو پلانٹڈ صحافت کی بنیاد پر بدنام ہوئے تھے انہوں نے موقع غنیمت جان کر قوم کے سامنے سرخرو ہونے کے جتن کیے۔ جو افسانہ نویس تھے اور بڑے بڑے رئیل اسٹیٹ مالکان کے کالم لکھتے تھے۔ انہوں نے بھی بہتی گنگا میں اشنان ضروری جانا۔ اور غزوہ ہند کے آخری سپاہی کے تو کیا کہنے۔ وہ تو اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ بلکہ انجمن عسکری و مذہبی و دفاعی و کل عقلی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :