"اوتری نختری"

منگل 28 اپریل 2020

Zoya Chaudary

زویا چوہدری

"جو کہتا ہے میں وہی کرتی ہوں- مجال ہے جو کسی سوال پر ہاں، نہ یا پھر اوں، آں کروں- کچھ دن پہلے میری بہنیں مولوی کی عیادت کرنے کے لیے آئیں تو بہت سا فروٹ بھی لے کر آئیں تھیں- سارا فروٹ میں نے مولوی کو کھلا دیا- اور اب کہہ رہا ہے کہ تم نے میرے لیے کیا ہی کیا ہے؟ کون سے کوفتے پکا پکا کر کھلا رہی ہو تم مجھے؟"
بی بی مسلسل بولتی جا رہی تھی اور میں کانی نظروں سے اسے دیکھ کر مسکراتی جا رہی تھی- مولوی اور بی بی جوانی کی سرحدیں پار کرتے ہوئے بڑھاپے کی آخری دہلیز پر آ کھڑے ہوئے ہیں- اللہ نے عزت و شرف کی زندگی سے ضرور نوازا مگر نعمت اور رحمت دونوں سے محروم رکھا- مولوی اور بی بی نے ساری زندگی تن تنہا گزار دی- نہ کبھی مولوی نے دوسری شادی کرنے کا سوچا اور نہ ہی بی بی کو کسی نومولود کو گود لینے کی سوجھی- مولوی نے ساری زندگی لوگوں کے نکاح کرواتے اور بی بی نے نکاح کے لڈو کھاتے گزار دی- اب ادھیڑ عمر میں جب مولوی کو دل کے عارضے نے آ لیا ہے تو بی بی بھی وفادار بیویوں کی طرح اُس کی خدمت میں جٹ گئی ہے- بدلے میں صرف یہ چاہتی ہے کے مولوی اُس کی سعادت مندی کو قبول کرے- مگر مولوی کے اندر کا بچہ باہر آ گیا ہے جو زرا زرا سی بات پر بی بی سے برابری کرنے پر اتر آتا ہے- آج کل فروٹس کا مسئلہ چل نکلا ہے- بی بی کو یہ شکوہ ہے کہ ایک چھلکا تک اسے نصیب نہیں ہوا اور مولوی سب ہضم کرنے کے بعد ایک عدد شکرانے کا ڈکار مارنے کو بھی تیار نہیں-
یہی چھوٹی چھوٹی خواہشیں لیے وفا شعار عورت قبر میں چلی جاتی ہے- کچھ ایسی اصناف نازک بھی پائی جاتی ہیں جنہیں محبت, خلوص اور تحسین کے چند ایک جملے نہیں بلکہ تفصیلی لیکچرز چاہیے ہوتے ہیں- خاص طور پر جب اُسکی کوکھ کبھی بھری نہ ہو- بچے وہ ننھے چراغ ہیں جن کی روشنی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے- لاک ڈاؤن میں جس جس گھر میں بچے ہیں وہاں کے مزاج قدرے بہتر ہوں گے- ایسی صورت حال میں ماں باپ پر بہت بڑی ذمہ داری آ جاتی ہے- چونکہ بچے اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کا خیال نہیں رکھ سکتے اس لئے آپ ماں، باپ یا بڑے بہن بھائی ہونے کی حیثیت سے ان کا ٹائم ٹیبل بنائیں- انہیں رات کو ٹائم سے سلائیں، صبح وقت پر اٹھائیں اور انکے کھانے پینے کے اوقات کار بالکل ٹھیک رکھیں- اگر بچوں کی نیند اور کھانے پینے کی روٹین میں زیادہ دیر تک اتار چڑھاؤ آتا ہے تو اس سے عمر بھر کی ذہنی اور جسمانی کمزوری پیدا ہو سکتی ہے- بچوں کو کم از کم دن میں تین گھنٹے پڑھائیں- اس سلسلے میں آپ PTV پر چلنے والی نشریات سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں- بچوں کو زیادہ دیر ٹیلی-ویژن دیکھنے نہ دیں- موبائل فونز اور ٹیبلیٹس سے خصوص طور پر دور رکھیں- خود بھی بچوں کے سامنے موبائل کے زیادہ استعمال سے گریز کریں- ان سے گفتگو کریں اور ان کی باتیں سمجھنے کی کوشش کریں- آپ جتنا ان سے بات کریں گے اُتنی ہی انکی مائنڈ بلڈنگ ہو گی- ایک خاص پہلو یہ ہے کہ بجائے بچوں کو نصیحتیں کرنے کے انکو سمجھیں اور پھر نہایت آسان الفاظ میں بغیر کسی دباؤ کے انہیں اپنی بات سمجھائیں-
وقتی سکون کے لیے یا اپنی جان چھوڑانے کے لیے بچوں کو کسی بھی رشتے دار کے گھر نہ بھیجیں- زیادہ تر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات قریبی رشتے داروں کے ہاتھوں ہوتے ہیں اس لیے رحمت کو زحمت سمجھتے ہوئے انہیں کسی کے بھی حوالے نہ کر دیں- بہتر ہے کے آپ انہیں اپنی نگرانی میں رکھیں-
نہ تو سارا دن بچوں کو کھیل کود میں لگا رہنے دیں اور نہ ہی انہیں سارا وقت باندھ کر رکھیں- بلکہ ایسا پرسکون ماحول بنائیں جس میں بچے اطمینان سے گھر وقت گزار سکیں- انھیں کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف رکھیں- صرف پڑھائی لکھائی ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ انسانی ذہنیت اور انسانی طور اطوار کو معمول بنانا بھی بہت ضروری ہے- بچوں کو انکے اندر موجود ہنر اور شوق سے آگاہ ہونے میں انکی مدد کریں- اور آپس میں بی بی کے مولوی یا مولوی کی بی بی کی طرح لڑنے سے گریز کریں- مسکراتے رہیں اور مسکراہٹیں بکھیرتے رہیے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :