بینظیر نے میثاق جمہوریت توڑ دیا، ہمارے راستے جدا ہو گئے، نواز شریف ،آمریت کے خلاف جدوجہد اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کریں گے، آمروں سے ملاقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،نجی ٹی وی سے گفتگو

پیر 30 جولائی 2007 22:06

لندن ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30جولائی۔2007ء) سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بے نظیر مشرف ملاقات پر میرا ردعمل وہی ہے جو قوم کا ہے۔ بینظیر نے میثاق جمہوریت کو توڑ دیا ہے۔ ملاقات کے بعد ہمارے راستے جدا ہو گئے۔ آمریت کے خلاف جدوجہد اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ بینظیر مشرف ملاقات پر قوم کا جو ردعمل ہے وہی ردعمل میرا بھی ہے۔ بینظیر کا یہ اقدام صرف میرے لئے نہیں پوری قوم کیلئے دکھ اور افسوس کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلا موقع تھا جب قوم اس نکتے پر متفق ہو گئی تھی کہ فوج کو سیاست سے علیحدہ ہو کر واپس بیرکوں میں چلے جانا چاہئے اور بندوق کی بجائے ووٹ کی حکمرانی ہونی چاہئے اور اس کیلئے عوام نے بہت قربانیاں دی۔

(جاری ہے)

خاص طور پر 12 مئی کو عوام نے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ ان سب کے باوجود اگر کوئی اب آمریت سے ہاتھ ملاتا ہے تو آمریت کو مضبوط کر رہا ہے اور یہ پوری قوم کی تحریک سے غداری ہے۔ انہوں نے میاں شہباز شریف کی صدر مشرف سے ملاقات کی خواہش کے بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے نہ کبھی جنرل مشرف سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا اور نہ ہی مجھے منع کرنے کی نوبت آئی۔

کیا ہم جنرل مشرف سے اقتدار کی بھیک مانگنے کیلئے ملاقاتیں کریں اور قوم کی جدوجہد پر پانی پھیر دیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے پاس کسی کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹھوکریں مارنے والے پاؤں کے تلوے چاٹنے سے انکار کر کے سابق روایات کو توڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہم میں خود داری بھی آئے گی؟ اور کیا ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں گے۔

مستقبل میں پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ (ق) کا متبادل ہونے کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ پی پی کسی کا متبادل بن رہی ہے یا نہیں۔ ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد عہد کیا تھا کہ ہم کسی ڈکٹیٹر سے بات چیت نہیں کریں گے۔ ہماری جماعت نے اسکی پابندی کی ہے آئندہ بھی کریں گے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک واضح فرق ہونا چاہئے کہ کون ڈکٹیٹر شپ کی گود میں ہے اور کون آمریت کے خلاف ہے انہوں نے کہا کہ اے آر ڈی باقی رہے یا نہ رہے ہم تو اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پاکستان کے عوام کی حکمرانوں کو بحال کرنے کیلئے جدوجہد کریں گے۔ اے آر ڈی پہلے بھی انتخابی اتحاد نہیں تھا ایک اصولی اور نظریاتی اتحاد ضرور تھا۔

لیکن اب کسی اور نے اپنے لئے دوسرا راستہ پسند کر لیا تو اسکی مرضی ہے۔ انہوں نے سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی گرفتاری کو الزام اور پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ گوہر ایوب کو کس نے بتایا ہے کہ میں سجاد علی شاہ کو گرفتار کرانا چاہتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جھوٹ بولنے والے لوگوں کی کمی نہیں جنرل مشرف نے بھی قوم کے سامنے جھوٹ بولا۔