مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سدباب یقینی بنانے کے لئے عالمی برادری کو اقتصادی پابندیوں، سفارتی بائیکاٹ اور قراردادوں کے ذریعے ٹھوس اقدام کرنا ہوں گے

پروفیسر شگفتہ اشرف کا اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے اِنسانی حقوق کے اجلاس سے خطاب

پیر 21 ستمبر 2015 16:19

جنیوا/اسلام آباد ۔ 21 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21 ستمبر۔2015ء) اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے اِنسانی حقوق کے جنیوا میں منعقدہ تیسویں اجلاس کے دوران اِنسانی حقوق کی سرگرم خواتین کارکنان پروفیسر شگفتہ اشرف اور زرتاشہ نیازی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سدباب یقینی بنانے کے لئے عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کی مذمت میں محض تاکیدی اور مذمتی بیانات پر اکتفا نہیں کرتے رہنا چاہیے بلکہ اقتصادی پابندیوں، سفارتی بائیکاٹ اور قراردادوں کے ذریعے ٹھوس اقدام کرنا ہوں گے تاکہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے عملی طور پر باز رکھا جاسکے۔

مقبوضہ کشمیر میں خواتین گزشتہ 68سالوں سے قابض بھارتی افواج کی بربریت کا سامنا کررہی ہیں۔

(جاری ہے)

مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج ایک طرف تو کشمیری مردوں کو قتل اور لاپتہ کرکے خواتین کوباپ، خاوند، بیٹے اور بھائی جیسے معاشی سہاروں اور عائلی رشتوں سے محروم کررہی ہیں تو دوسری طرف خواتین کی آبروریزی کرکے شرفِ بنتِ حوا کی آبرو کی دھجیاں اُڑا رہی ہیں۔

زرتاشہ نیازی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارتی افواج کے کشمیری خواتین کے خلاف جنسی زیادتی، جنسی طور پرہراساں کرنے، حبسِ بے جا اورپر تشدد ہتھکنڈوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں طالبات حصولِ تعلیم اور بے سہاراخواتین سبیلِ معاش کے لئے گھروں سے باہر نکلنے سے خائف رہتی ہیں جس کی وجہ سے کشمیری خواتین تعلیم اور روزگار کی دوڑ میں سنگین مسائل سے دوچار ہیں اور نتیجتاً خواتین کا سماجی کردار بھی مفلوج ہوتا جارہا ہے، زرتاشہ نیازی نے کہا کہ قابض بھارتی افواج کشمیریوں کے گھروں پہ چھاپوں کے دوران بھی خواتین کی آبروریزی سے باز نہیں آتیں اوران کی آنکھوں کے سامنے اُن کے بچوں اور عزیزوں کو تشدد اور قتل کا نشانہ بنا کر نفسیاتی صدموں سے دوچار کرتی ہیں جو کہ حقوق نسواں کے حوالے سے عالمی ضمیر کے لئے سوالیہ نشان ہے جس کے جواب میں کشمیری خواتین اب بھارت کے خلاف عملی مداخلت کی متقاضی ہیں۔

پروفیسر شگفتہ اشرف نے بھی عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی رویے کے خلاف مداخلت کی سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر حقوق نسواں کی صورتحال کے سلسلے میں دنیا بھر سے موازنے میں بدترین ہے یہاں تک کہ کشمیری نوجوانوں کو حریت پسندی ترک کرنے پر مجبور کرنے کے لئے قابض بھارتی افواج خواتین کی عصمت دری کو بطور حکمت عملی استعمال کرتی ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کو غیرمعمولی انسانی حقوق شکن اختیارات حاصل ہونے کی وجہ سے کشمیری خواتین گزشتہ 68 سالوں سے مستقل طور پر احساس عدم تحفظ سے دوچار ہیں۔

پروفیسر شگفتہ اشرف نے کہا کہ بھارت انسانی حقوق کے بالعموم اور حقوق نسواں کے بالخصوص عالمی مسلمہ قوانین پر نہ تو عمل درآمد کرتا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا معائنہ کرنے کی اجازت دیتا ہے لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بحرانی صورتحال میں عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں، فیمینسٹ تنظیمیں، این جی اوز، سول سائٹیز اور سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ عملی مداخلت کریں تاکہ انسانی حقوق کی پامالیوں اور خواتین کے مسائل کا سدباب ممکن ہوسکے۔

یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے اِنسانی حقوق کے تیسویں اجلاس کے پہلے روز سے اجلاس میں شریک انسانی حقوق کے داعیان مقبوضہ کشمیر کو زیرِبحث مسائل میں سرفہرست لاتے آرہے ہیں۔ اس ضمن میں بھارت کو مسئلہ کشمیر پرعالمی برادری کے سامنے سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور مسئلہ کشمیر کو حل طلب عالمی تنازعات کی درجہ بندی میں ترجیح مل رہی ہے۔