آزاد کشمیر میں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہ ہونا، وفاقی اور آزاد کشمیر حکومتوں کی غفلت کا نتیجہ، مجرمانہ فعل ہے، بیرسٹر سلطان محمود

منگل 3 نومبر 2015 16:58

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔3 نومبر۔2015ء) آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم و کشمیر پی ٹی آئی کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ ابھی تک آزاد کشمیر میں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہ ہو نا نہ صرف وفاقی اور آزاد کشمیر حکومتوں کی غفلت اور لا پرواہی ہے بلکہ یہ ایک مجرمانہ فعل ہے اور اگرچہ ہم مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کی بات کرتے ہیں لیکن آزاد کشمیر میں وفاقی اور آزاد کشمیرحکومتیں چیف الیکشن کمشنر کے مسئلے کو اسلئے جان بوجھ طوالت دے رہے ہیں کہ نوجوانوں کے ووٹ درج نہ ہو سکیں لیکن وہ نوجوانوں کی طاقت سے واقف نہیں کہ وہ اپنا حق لینا جانتے ہیں۔

میں عنقریب جب میدان عمل میں نکلوں گا تو نوجوان اپنا حق لے لیں گے۔ ہم اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں تو آواز بلند کرتے ہیں لیکن جب آزاد کشمیر میں اس طرح کے حربے استعمال کرکے دونوں حکومتیں ہمارے موقف کو کمزورثابت کررہی ہیں جس کی ہم کسی صورت اجازت نہیں دیں گے۔

(جاری ہے)

اگر چند دن میں چیف الیکشن کمشنر کی باضابطہ تقرری نہ کی گئی تو عوامی تحریک کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے آج یہاں اپنی رہائشگاہ پر اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج ہے اور ہمارا موقف یہی ہوتا ہے کہ ملٹری کنٹونمنٹ میں کونسے انتخابات ہوتے ہیں لیکن اگر آزاد کشمیر ایسے حالات بنا دئیے جائیں جبکہ آئینی طور پر الیکشن سر پر ہیں اور ابھی تک چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں ہو سکا۔

دونوں حکومتیں حیلے بہانے کرکے مک مکا کی سیاست پر گامزن ہیں کیونکہ دونوں حکومتیں جانتی ہیں کہ وہ الیکشن نہیں جیت سکتیں کیونکہ آئندہ الیکشن کا نتیجہ بھی میرپور کے ضمنی الیکشن سے مختلف نہیں ہو گا۔ اگر آزاد کشمیر میں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہ کیا گیا تو بین اقوامی ادارے اورغیر جانبدار آبزرور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کو برابر قرار دے سکتے ہیں۔

پہلے بھی آزاد کشمیر میں 48 میں سے 30 اراکین نے موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کرنا چاہاتو نواز شریف نے اس عدم اعتماد کو رکوا کر یہ ثابت کیا کہ جہاں مقبوضہ کشمیر کے فیصلے دہلی میں ہوتے ہیں وہاں آزاد کشمیر کے فیصلے اسلام آباد سے ہوتے ہیں۔ اس طرح ہمارے موقف کو انتہائی کمزور کر دیا گیا۔ اسلئے ہماری کوشش ہے کہ آزاد کشمیر میں ریاستی تشخص کوبحال کریں نہ کہ ہم اپنے ریاستی تشخص کو اسطرح پیش کریں کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ نام کا۔