تنازعہ کشمیر اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس کا موقف واضح اور غیر مبہم ہے، ترجمان

کشمیریوں کی تمام مصیبتوں اور مشکلات کی بنیادی وجہ ریاست پربھارت کا جبری قبضہ ہے بھارت نواز جماعتوںکو اقتدار کے سوا کسی چیز سے مطلب نہیں ،حصول کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں، بیان

منگل 4 جولائی 2017 22:23

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 جولائی2017ء) کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے سید علی گیلانی اور کل جماعتی حریت کانفرنس کا موقف بالکل واضح اور غیر مبہم ہے اور اس موقف پر سخت ترین حالات میں بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق حریت کانفرنس کے ترجمان نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ کشمیریوں کی تمام مصیبتوں اور مشکلات کی بنیادی وجہ بھارت کا ریاست پر جبری قبضہ ہے اور باقی تمام مسائل اسی کا شاخسانہ ہے۔

انہوں نے کہاکہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور دوسری بھارت نواز جماعتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ دونوںجماعتیں بھارت کے قبضے کو تسلیم کرتی ہیں اور اپنے عمل سے اس کو سندِ جواز عطا کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

بھارت کشمیری عوام کے خلاف جو ظُلم کی کلہاڑی استعمال کررہا ہے، یہ اس کے دستے کا کام کررہے ہیں اور اپنی قوم کے مفادات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ انہیں اقتدار کے سوا کسی چیز سے مطلب نہیں اور اس کے حصول کے لیے یہ کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔

انہوں نے جی ایس ٹی کو ریاست میں لاگو کرنے کے مسئلے پر کل جماعتی حریت کانفرنس کاموقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے حکمران ہر ممکن طریقے سے ریاست پر اپنے فوجی قبضے کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ 1947ء سے ہی ریاست کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے اقدامات اٹھاتے رہے ہیں۔ دفعہ 370اب محض ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن کر رہ گیا ہے اور اس کے لیے تمام بھارت نواز سیاستدان برابر کے ذمہ دار ہیں۔

اس قانون کی رُو سے جموں وکشمیر کا اپنا وزیر اعظم اور صدرِ ریاست ہوا کرتا تھا، جس کو پہلے بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق جیسے لوگوں نے ختم کرانے میں بھارتی حکمرانوں سے تعاون کیا اور پھر 1975ء میں اس کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھونکی گئی جب نیشنل کانفرنس نے محاذ رائے شماری کے نعرے کو دفن کیا اور وزیرِ اعظم کے بجائے وزیرِ اعلیٰ اور صدرِ ریاست کے بجائے گورنر کے منصب پر قناعت کرکے اقتدار کو گلے لگالیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بھی ریاست کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرانے کے اقدامات اٹھائے جاتے رہے لیکن کسی بھارت نواز جماعت نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ نیشنل کانفرنس نے اقتدار میں آکر لینڈ گرانٹس بِل پاس کراکے اس پوزیشن پر ایک کاری ضرب لگائی اور غیر ریاستی باشندوں کو 90سال تک زمین لیز پر دینے کی منظوری دی۔ اُس کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رُکا اور آج بھی جاری ہے۔

ریاست کے آبی وسائل اور پًن بجلی پروجیکٹوں کے انتظام وانصرام کو بھارتی ادارے این ایچ پی سی نے اپنے قبضے میں کرلیا تو یہ جماعت نہ صرف خاموش رہی بلکہ اس نے دِلی والوں سے بھرپور تعاون کیا۔انہوں نے کہاکہ بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے جموں کشمیر تک اپنے دائرہ کار کو بڑھادیا اور کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے یا جیلوں سے نکال کر تہاڑ جیل پہنچادیا، تو انہیں دفعہ 370کی یاد نہیںآئی۔

ریاست کی خصوصی پوزیشن کے نام نہاد رکھوالے اقتدار میں آکر ایک طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں اور جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو وہ ماضی کے اپنے مجرمانہ رول کو فراموش کرتے ہیں۔ انہیں جب اسمبلی میں دوتہائی اکثریت حاصل تھی تو یہ اس وقت اٹانومی کے حق میں آسانی کے ساتھ ایک بِل پاس کراسکتے تھے۔ اس کے بجائے انہوں نے محض ایک قرارداد پاس کرائی جس کو دلی والوں نے ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور ان کی طرف سے کوئی احتجاج بلند نہیں کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ آزاد کشمیر پر بمباری کرنے اور کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرنے کے بجائے گولی مارکر قتل کرنے کی وکالت کس نے کی تھی 2010ء میں 125معصوم طالب علموں کو قتل کرانے کا ذمہ دار کون ہے اور سینئر آزادی پسند رہنمامسرت عالم بٹ کے قتل کی سُپاری عاشق بخاری کو کس نے دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حریت کانفرنس دفعہ 370 کے حوالے سے نیشنل کانفرنس کے کردار پر ایک تفصیلی وائٹ پیپر جاری کرے گی، جس سے ان کے رول کی پوری طرح سے وضاحت ہوجائے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ جموں وکشمیر کی سِول سوسائٹی اور تاجر برادری ہر حیثیت سے قابلِ احترام ہے اور ان کا مسئلہ کشمیر اور اس سے پیدا شدہ دوسرے مسائل میں اہم کردار ہے جس کو وہ بحسن وخوبی انجام دیتی رہی ہیں لیکن حریت کانفرنس یہ احتیاط برتنے کی صلاح ضرور دیتی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور دوسرے ذیلی مسائل میں جو حدِّ فاصل ہے، اس کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے اور بنیادی قضیے سے کسی صورت میں توجہ نہیں ہٹنی چاہیے اور نہ اس کو پسِ منظر میں لے جانے کی بھارتی پالیسی سازوں کی کوششوں کو کامیاب ہونے کا موقع ملنا چاہیے۔