این اے 120کے ضمنی انتخاب میں عوام نے نواز شریف کو سر خرو کیا، نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام اور اس پر عملدرآمد کر دیا ، اب ہمیں عدالتی فیصلے پر ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے، تحریک انصاف کے نہ ماننے پر الیکشن کمیشن نے این اے 120 کیلئے پولنگ کے مقررہ وقت میں اضافہ نہ کیا

صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان کی پنجاب اسمبلی کیفے ٹیریا میں پریس کانفرنس

منگل 19 ستمبر 2017 20:41

این اے 120کے ضمنی انتخاب میں عوام نے نواز شریف کو سر خرو کیا، نواز شریف ..
لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 ستمبر2017ء) صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ این اے 120کے ضمنی انتخاب میں عوام نے نواز شریف کو سر خرو کیا، نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام اور اس پر عملدرآمد کر دیا ہے ، اب ہمیں عدالتی فیصلے پر ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے، تحریک انصاف کے نہ ماننے پر الیکشن کمیشن نے این اے 120کیلئے پولنگ کے مقررہ وقت میں اضافہ نہ کیا ۔

منگل کو پنجاب اسمبلی کیفے ٹیریا میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمدکرنا ہی سپریم کورٹ کی عزت اور احترام ہوتا ہے، سپریم کورٹ کافیصلہ آنے پر اس پر کوئی دوسری رائے نہیں رکھی گئی اور نواز شریف نے سب سے پہلا کام فیصلے پر عملدرآمد کیا لیکن آئین و قانون کے مطابق یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ آپ اس پر ایمان لے آئیں نہ ہی ہمیں اس پر مجبور کیا جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بہت محترم ہے اور ہم ایسا نہیں چاہتے تھے کہ فیصلے کو تسلیم نہ کر کے ملک کو انارکی کی طرف لیجایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے فیصلے سے متعلق آنے والا وقت اور تاریخ فیصلہ کرے گی کہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیںایک معزز جج کی طرف سے گاڈ فادر کہا گیا لیکن ایک معزز جج نے یہ بھی کہا کہ این اے 120کا نتیجہ عوامی مینڈیٹ ہے اس کا احترام کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اندر کوئی مایوسی نہیں اور ہم جو بات کر رہے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ نہ کہا جائے کہ ہم فیصلے پر ایمان لے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے اسلام آباد سے لاہور سفر کے دوران ایک بھی مقام پر کسی معز زجج کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا جبکہ مریم نواز نے بھی پوری مہم کے دوران نواز شریف کی بات کو آگے بڑھایا اور ذاتی طور پر کسی بھی معزز جج یا سپریم کورٹ کو ہدف تنقید نہیں بنایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے نام پر ووٹ مانگا ، اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کو الیکشن میں ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ۔ انہوںنے کہا کہ ضمنی انتخاب میں تقریباً39.42فیصد ٹرن آئوٹ رہا جو تقریبا چالیس فیصد بنتاہے اور اتنا تو عام انتخابات میں ہوتا ہے اور یہ مریم نواز کے انتہائی منظم انداز میں مہم چلانے کا نتیجہ ہے کہ ووٹرز باہر نکلے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر پولنگ کا وقت بڑھا دیا جاتا تو یہ ٹرن آئوٹ 50فیصد ہونا تھا ۔ آٹھ سے دس ہزار ووٹرز پولنگ اسٹیشزنے کے باہر کھڑے تھے جب ہم نے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مقابلے میں شریک دوسری جماعتوں سے بھی پوچھنا ہے اور پی ٹی آئی نے کہا کہ وقت نہ بڑھائیں اور فوری گنتی کا عمل شروع کریں اگر یہ دس ہزار ووٹ پڑ جاتے تو ہمار ی لیڈ 25ہزار تک پہنچ گئی تھی جبکہ اس کے علاوہ جو 44امیدوار کھڑے کئے گئے ہیں گزشتہ عام انتخابات میںیہ ووٹ بھی مسلم لیگ (ن) کے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ این اے 120 کے عوام نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد اور نوازشریف کو سرخرو کیا ہے اور ہمارے موقف کو عوام نے قبول کیا ہے۔ ہم اس ملک میں جمہوریت اور آئین و قانون کی بالا دستی اور اداروں کا احترام چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب نیب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمارے خلاف ریفرنس دائر ہونا ہے تو پھروہاں جا کر کیا کرنا ہے ۔ جے آئی ٹی کے ایک رکن کے بارے میں سپریم کورٹ کے معز زجج نے کہا کہ کل تک ان کا حل دیکھو اورآج یہ ہیرو بنا ہوا ہے اور ہم انہیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کہ انہیں تا حیات تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے ۔

انہوںنے کہا کہ قوم حیران اور پریشان ہے اور سوچ رہی ہے کہ جے آئی ٹی اراکین نے کون سا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ واجد ضیاء تین چار سال قبل ڈی جی حج تھے، میں اب سعودی عرب گیا وہاں ایسی ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ اگر ان کی انکوائری ہو جائے تو ان کا کردار کھل کر سامنے آ جائے ۔صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا رواں سیشن یکم محرم الحرام تک جاری رہے گا جس میں اہم قانون سازی بھی کی جائے گی ۔

آج بدھ کے روز ایجنڈے میں ملتان، راوالپنڈی اور فیصل آباد میڈیکل کالجز کو یونیورسٹیز کا درجہ دینے کے حوالے سے قانون سازی ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان کی مسلمہ روایت رہی ہے کہ ممبرز آوورز خصوصاً جب پرائیویٹ ممبر ڈے ہو اس دن روز اپوزیشن حکومت کوتنقید اور اس کا محاسبہ کرتے ہوئے ٹف ٹائم دیتی ہے لیکن یہ پہلی اپوزیشن ہے جو راہ فرار اختیار کرتی ہے ۔ ایوان حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے مل کر ایوان بنتا ہے اور اس کو چلانے کی ذمہ داری دونوں پر عائد ہوتی ہے ۔