سینیٹ میں اپوزیشن کی فیض آباد دھرنے کے خلاف آپریشن میں حکومتی ناکامی پر شدید تنقید

ختم نبوتؐ کے قانون میں ترمیم کر کے اتنا بڑا جرم کیا گیا ذمہ داران کو سامنے لایا جائے،راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے،پورے پاکستان میں حالات خراب ہوئے ہیں، حکومت فیل ہو گئی اور آرمی کو بلایا گیا، رینجرز آرمی کے تابع نہیں بلکہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے،جنہوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ان کو چھوڑ دیا گیا ، ردالفساد کرنے والوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں، آرمی چیف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ دونوں اطراف سے پر امن رہ کر مسئلے کو حل کیا جائے، ٹیلی فون ضروری تھابے شک کریں، کیا اس ٹیلی فون کی پریس ریلیز جاری کرنا ضروری تھی ، میڈیا مینجمنٹ یہ نہیں کہ اچھی انگریزی اور اچھی اردو لکھیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دھرنا حقیقت بن چکی ہے اور اگلی دفعہ کا جو دھرنا ہو گا وہ زیادہ خطرناک ہو گا۔ایٹمی طاقت ملک میں 5ہزار لوگ آئیں اور اپنے مطالبات منوائیں، ایک شخص بنی گالہ سے اسلام آباد کی حفاظت پر بیان دے رہا تھا، مذہبی جماعتوں نے بھی اس پر چالاکی سے کام لیا،اپوزیشن اراکین کا سینیٹ میں اظہار خیال پارلیمان کے سامنے 126دن دھرنا دیا گیا اور کہا گیا کہ انگلی اٹھائی گئی یا نہیں اٹھائی گئی،یہ پارلیمان آج مقدس ہے تو پہلے بھی مقدس تھا، اس پر دکھ درد کی داستان سنانے کے بجائے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے،راجہ ظفرالحق پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں، دانشوروں کو بیٹھ کر قومی بیانیہ تیار کرنا ہو گاتا کہ ان ٹرینڈز کو روکا جائے، مشرف حکومت فارمولہ اور ٹیکنوکریٹ فارمولہ نہیں چلے گا،چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی

پیر 27 نومبر 2017 22:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 نومبر2017ء) سینیٹ (ایوان بالا ) میں اپوزیشن نے فیض آباد دھرنے کے خلاف کیے جانیوالے آپریشن میں حکومتی ناکامی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ختم نبوتؐ کے قانون میں ترمیم کر کے اتنا بڑا جرم کیا گیا ذمہ داران کو سامنے لایا جائے،راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔

پورے پاکستان میں حالات خراب ہوئے ہیں، حکومت فیل ہو گئی اور آرمی کو بلایا گیا، رینجرز آرمی کے تابع نہیں بلکہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔جنہوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا ان کو چھوڑ دیا گیا، ردالفساد کرنے والوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں، آرمی چیف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ دونوں اطراف سے پر امن رہ کر مسئلے کو حل کیا جائے، ٹیلی فون ضروری تھابے شک کریں، کیا اس ٹیلی فون کی پریس ریلیز جاری کرنا ضروریتھی ، میڈیا مینجمنٹ یہ نہیں کہ اچھی انگریزی اور اچھی اردو لکھیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دھرنا حقیقت بن چکی ہے اور اگلی دفعہ کا جو دھرنا ہو گا وہ زیادہ خطرناک ہو گا۔

(جاری ہے)

ایٹمی طاقت ملک میں 5ہزار لوگ آئیں اور اپنے مطالبات منوائیں، ایک شخص بنی گالہ سے اسلام آباد کی حفاظت پر بیان دے رہا تھا، مذہبی جماعتوں نے بھی اس پر چالاکی سے کام لیا۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اس پارلیمان کے سامنے 126دن دھرنا دیا گیا اور کہا گیا کہ انگلی اٹھائی گئی نہیں اٹھائی گئی،یہ پارلیمان آج مقدس ہے تو پہلے بھی مقدس تھی، اس پر دکھ درد کی داستان سنانے کے بجائے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں، دانشوروں کو بیٹھ کر قومی بیانیہ تیار کرنا ہو گاتا کہ ان ٹرینڈز کو روکا جائے، مشرف حکومت فارمولہ اور ٹیکنوکریٹ فارمولہ نہیں چلے گا، یہ سب کو باور کرنا چاہیے، حکومتی رٹ جو پامال ہوئی ہے اسے پارلیمان اپنی بھرپور کوشش کرتے ہوئے اسے بحال کرے گی۔پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا ۔

اجلاس میں فیض آباد دھرنے کے حوالے سے ایوان میں موجود ارکان نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔سینیٹراعظم سواتی نے کہا کہ حکومت نے ریاست کی رٹ کو ڈبویا ہے ایک وزیر داخلہ پہلی دفعہ کہہ رہا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا، سول حکومت جب خود قانون کی دھجیاں اڑائے گی تو اور خود کہے گی کہ آپریشن انہوں نے نہیں بلکہ کمشنر نے کرایا، وزیر جنہوں نے استعفیٰ دیا اور کون سا شخص اس میں ملوث تھا جس نے ختم نبوتؐ کے قانون میں ترمیم کی ، پاکستان کے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ ختم نبوتؐ کے قانون میں ترمیم کر کے اتنا بڑا جرم کیا گیا ان کو سامنے لایا جائے۔

قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اس پارلیمان کے سامنے 126دن دھرنا دیا گیا اور کہا گیا کہ انگلی اٹھائی گئی نہیں اٹھائی گئی، اپنا بھی خیال رکھنا چاہیے مگر دوسروں کا بھی خیال رکھنا چاہیے، یہ پارلیمان آج مقدس ہے تو پہلے بھی مقدس تھی، اس پر دکھ درد کی داستان سنانے کے بجائے مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ 20دن میں ہم نے مفلوج حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر کسی حکمت کے دیکھے ہیں، سب سے پہلے 1500لوگوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت کس نے دی، احتجاج ہر کسی کا حق ہے،مگر اس کا بھی طریقہ ہے، یہ ایک دن نہیں ہوا بلکہ جاری ہوا، ایک ناکام آپریشن کیا جاتا ہے اور وزیر داخلہ کو علم نہیں تھا، پولیس کو مارا گیا ہے عام لوگوں کو بھی مارا گیا ہے، پورے پاکستان میں حالات خراب ہوئے ہیں، حکومت فیل ہو گئی اور آرمی کو بلایا گیا، رینجرز آرمی کے تابع نہیں بلکہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں مگر نظرکہیں نہیں آتی، پہلے کہا تھا کہ دھرنا مسائل پیدا کرے گا، ایسے علماء سے رابطہ نہیں کیا گیا جو یہ بات سمجھاتے، اسلام آباد میں بیٹھ کر حکومتی رٹ کو چیلنج کیا گیا، کہاں گیا، ردالفساد اور نیشنل ایکشن پلان، حکومت جاتی امراء سے نہیں بلکہ اسلام آباد سے چلتی ہے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں دھرنا ہوا اور اس کے نتیجے میں وزیر نے استعفیٰ دیا، پولیس اور ایف سی کو بھیجنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہو گا، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی جنہوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا گیا، ردالفساد کرنے والوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں، آرمی چیف نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ دونوں اطراف سے پر امن رہ کر مسئلے کو حل کیا جائے، ٹیلی فون ضروری تھابے شک کریں، کیا اس ٹیلی فون کی پریس ریلیز جاری کرنا ضروری نہیں ہوتا، میڈیا مینجمنٹ یہ نہیں کہ اچھی انگریزی اور اچھی اردو لکھیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دھرنا حقیقت بن چکی ہے اور اگلی دفعہ کا جو دھرنا ہو گا وہ زیادہ خطرناک ہو گا، تمام 2013 سے آج تک کے تمام دھرنوں کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ راجہ ظفر الحق کے بیان سے تکلیف ہوئی، جمہوریت کے سٹرکچر کو صفر کر دیا ہے، لگ رہا تھا کہ وزیر داخلہ بالکل ناکام ہو چکے ہیں، ایک سویلین حکومت جو خود کو جمہوریت کی چیمپیئن سمجھتی ہے، وہ اپنی ساری حکومت میں کرائسز میں رہی ہے، سویلین حکومت پیچھے نہیں ہوتی بلکہ ساری سیاسی قوتوں کوپیچھے کیا ہے اور آرمی ہی اب تمام مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی رپورٹ ہی نہیں آئی، کمیٹی بنی ہی نہیں تھی۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ یہ سب کیلئے پریشانی کی بات تھی کہ ختم نبوتؐ کے حلف نامے میں ایک ایسی ترمیم کر دی جس سے پورے ملک میں خلفشار پیدا ہوا، میرا مطالبہ تھا کہ پارلیمان کو اس کا حق ہے کہ معاملے کو حل کیا جائے مگر بروقت کام کیا جاتا تو نہ ہلاکتیں ہوتیں اگر ان چہروں کو سامنے لایا جاتا، راجہ ظفر الحق کی کمیٹی پر سب نے اعتبار کیا، راجہ ظفر الحق کی کمیٹی رپورٹ آج شائع ہوجائے تو معاملات حل ہو جائیں گے، راجہ ظفر الحق کی جو بھی رپورٹ ہو گی وہ حقائق پر مبنی ہو گی، حقائق سامنے آنے چاہئیں، وہ کون سے لوگ ہیں جنہوں نے اتنا بڑا جرم کیا ہے۔

سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ پاکستان میں 99فیصد سے زیادہ لوگ توہین رسالت کا سوچ بھی نہیں سکتے، اگر ہم خود پارلیمنٹ کی بے توقیری کریں گے تو کوئی پھر سا کی عزت نہیں کرے گا، نئی حلقہ بندیوں کے بل کے حوالے سے 69اراکین ہم سے پورے نہیں ہورہے ہیں۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ دھرنے میں سازش پنہاں تھی، دھرنا جہاں سے شروع ہوا وہیں اختتام ہوا، پرویز مشرف نے بھی آزادی صحافت پر پابندی لگائی اور جمہوری حکومت نے بھی اس پر پابندی لگائی، اگر ملک میں جمہوریت نہیں ہو گی تو تمام سیاسی جماعتوں کیلئے المیہ ہو گا، حکومت میں ایسے لوگ ہیں جو اداروں کے شاگرد ہیں، نواز شریف کے خلاف ان کے اپنے سازش کر رہے ہیں، ہمیں نواز شریف اور زرداری کا غم نہیں بلکہ جمہوریت کا غم ہے۔

سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پہ ہے، بیس دن تک دارالحکومت کو یرغمال بنانے والے کو حفاظت سے جانے دیا گیا، ریاست پاکستان کو اپنی نظروں میں گرا دیا ہے اور عالمی دنیا کے سامنے بھی گرا دیا، ایٹمی طاقت ملک میں 5ہزار لوگ آئیں اور اپنے مطالبات منوائیں، ایک شخص بنی گالہ سے اسلام آباد کی حفاظت پر بیان دے رہا تھا، مذہبی جماعتوں نے بھی اس پر چالاکی سے کام لیا۔

سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ وزیر داخلہ کو اس ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، اصل حقائق پیش کرنے سے حکومت قاصر ہے، اسلام سے متصادم قوانین بنانے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، چھ مہینوں کے دھرنے جائز تھے ،پی پی کے دور میں بھی دھرنا دیا گیا، آج ہم سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، حکومت کمزور ہے مگر کوئی سیاسی جماعت خاص لوگوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی، تین اجلاسوں کے بعد نیب کمیشن پر بڑی سیاسی جماعتیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئیں، سینیٹر احتشام الحق تھانوی نے کہا کہ دھرنا دنیا جمہوریت کا تقاصا ہے اس پر نظرثانی کی جائے، یہ تکلیف دہ عمل ہے اور ہر ہر دھرنے کی مذمت کی جانی چاہیے، کسی مذہبی سیاسی جماعت کے دھرنے پر پابندی لگائی جائے اور جو دھرنا اس پر ملک سے بغاون کا مقدمہ بنایا جائے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ مکافات عمل ہے، چالیس سال سے ضیاء الحق کے دور سے افغانستان کیلئے تیار کئے گئے لوگ اب گلے پڑ گئے ہیں، ضیاء الحق کی روح دھرنا دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ میں امیر المئومنین ہوں، دھرنے کے پیچھے کون تھا یہ بتایا جائے، اس پارلیمنٹ میں ایسی جماعتیں ہیں جن کے لاکھوں ووٹ ہیں، دارالحکومت میں نجی لشکر موجود ہیں، ملک میں مار شل لاء لگا ہوا ہے، پارلیمان ،عدلیہ اور سیاستدانوں کو گالیاں دی گئیں، یہ لوگ ملک میں قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں، بلوچ اور پشتونوں پر رد الفساد آپریشن کیا جاتا ہے، ان لوگوں کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا، اس پر مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔

سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ لوگ کہاں سے آئے اور پس پردہ ان کوکون لوگ ملنے جاتے تھے، تین گھنٹے میں مسئلہ حل کرنے کی بات کی گئی مگر حل نہیں ہوا۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ دو دن کے واقعات نہایت سنگین ہیں اور پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہیں جو ٹرینڈز پہلے کبھی نہیں تھے وہ ابھر کر سامنے آئے ہیں جو نہ صرف سیاسی اور جمہوریت کیلئے بلکہ ریاست پاکستان کیلئے خطرناک ہیں، پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں، دانشوروں کو بیٹھ کر قومی بیانیہ تیار کرنا ہو گاتا کہ ان ٹرینڈز کو روکا جائے، اس میں کلیدی کردار پارلیمان کا ہے، حکومت کا جو رویہ پارلیمان کے ساتھ ہے مگر یہی پارلیمان ملک کی حفاظت بھی کرے گی اور دفاع بھی کرے گی اور کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی ، کسی مشرف حکومت فارمولہ اور ٹیکنوکریٹ فارمولہ نہیں چلے گا، یہ سب کو باور کرنا چاہیے، حکومتی رٹ جو پامال ہوئی ہے اسے پارلیمان اپنی بھرپور کوشش کرتے ہوئے اسے بحال کرے گی۔