میرپورڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ انجینئرکا آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب

نسل نو کو معیاری تعلیم کے ساتھ صحت مند سرگرمیاں مہیا کر کے ہی ہم روشن مستقبل کی جانب بڑھ سکتے ہیں ،ْسردار جاوید اعجاز

بدھ 29 نومبر 2017 15:49

میرپور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 نومبر2017ء) پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (بلڈنگ) میرپور ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ انجینئر سردار جاوید اعجاز نے کہا ہے کہ نسل نو کو معیاری تعلیم کے ساتھ صحت مند سرگرمیاں مہیا کر کے ہی ہم روشن مستقبل کی جانب بڑھ سکتے ہیں،تعلیم کا بنیادی مقصد ایک نسل سے دوسری نسل تک علم، مہارت اور اقدار کی منتقلی ہے، کھیل کے میدان آباد کر کے ہی ہم ہسپتال ویران کر سکتے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد کشمیر تعلیمی بورڈ کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاضلاعی کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں گورنمنٹ ہائی سکول ہورنہ میراہ ضلع راولاکوٹ کی کامیاب ہونے والی ٹیم کے اعزا ز میں دیئے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے کیا، تقریب میں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیم انکے اساتذہ و دیگر نمائندہ افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی، سردار جاوید اعجاز نے ونر ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ آج جس سکول کی کرکٹ ٹیم نے کامیابی حاصل کی ہے وہاں سے نہ صرف میں نے بلکہ آزادکشمیر کے بانی صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان (مرحوم) نے بھی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارہ بنیادی طور پر ایک طالب علم کو خوشگوار اور صحت مند ماحول مہیا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے جہاں جدید تعلیم کے ساتھ دینی و نفسیاتی طور پر طالب علم کی تربیت کی جائے، انہوں نے کہا کہ کھیل سے جہاں بھرپور تفریح ملتی ہے وہاں ایک صحت مند جسم اور دماغ کی بھی نشو نما ہوتی ہے کھیل سے نظم و ضبط، بہادری، باہمی مدد اور چوکنا رہنے کی خصوصیات بڑھتی ہیں آج کچھ کھیل تو پیشہ وارانہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں کرکٹ، ٹینس، فٹ بال، بین الاقوامی مقابلے ہیں ان میں کامیاب کھلاڑیوں کو اچھی خاصی مالی منفعت ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ خاندان اور میڈیا کے علاوہ ایک اہم معاشرتی ادارہ سکول، کالج اور یونیورسٹی ہے اس معاشرتی ادارے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ نوجوان نسل کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، تعلیم کا بنیادی مقصد ایک نسل سے دوسری نسل تک علم، مہارت اور اقدار کی منتقلی ہے، انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں ہم نصابی سرگرمیاں تعلیمی اداروں کی جان ہوا کرتی تھیں یہ سرگرمیاں حقیقی معنوں میں طلبہ کی شخصیت سازی کرتی ہیں لیکن آج بدقسمتی سے بہت سے تعلیمی اداروں میں یہ سرگرمیاں ناپید ہو گئی ہیں اس طرح کی مثبت سرگرمیوں کی غیر موجودگی میں بہرحال اس بات کا اندیشہ رہتا ہے کہ طلبہ کسی غیر صحت مند سرگرمی کی جانب راغب نہ ہو جائیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشرے سے جنس، رنگ و نسل اور کلاس کے امتیازا ت ختم کرنا ہوں گے کیونکہ ان امتیازات کی بنیاد پر زور آور طبقے دوسروں کے حقوق غصب کر کے معاشرے میں اہم جگہوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور بے وسیلہ لوگوں پر نوکریوں، انصاف اور اظہار کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اسی طرح امتیاز کی ایک شکل تعلیمی عصبیت بھی ہے کیونکہ تعلیمی ادارے بھی معاشرتی مراتب کی بنیاد پر قائم ہو رہے ہیں، اشرافیہ کے تعلیمی اداروں میں صرف امراء ہی اپنے بچوں کو بھیج سکتے ہیں کیونکہ ایسے مہنگے اداروں میں عام لوگ تو اپنے بچوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، سیاست کے میدان میں بھی عام آدمی کا داخلہ مشکل ہی نہیں بلکہ بڑی حد تک ناممکن بنا دیا گیا ہے کیونکہ انتخابات میں مقابلہ کرنے اور جیتنے کے لیے بھی برادری اور مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے یوں معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ معاشرتی، عدالتی، سیاسی اور تعلیمی اخراج کا شکار ہو جاتا ہے ان لوگوں پر مواقع اورسہولیات کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور انہی میں سے کچھ لوگ آسانی سے سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہوجاتے ہیں، سردار جاوید اعجاز نے کہا کہ عہد حاضر میں ایسی تعلیمی مہارتوں کی ضرورت ہے جو طلبہ میں تنقیدی فکر پیدا کریں تا کہ وہ ملک کے ذمہ دار شہری بن سکیں اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب علم کو ایک جامد چیز نہ سمجھا جائے اور طلباء کو صرف علم منتقل نہ کیا جائے بلکہ ان میں تنقیدی فکر و نظر کو اجاگر کیا جائے اور ان کی سوچ کو بھی اسی قالب میں ڈھالا جائے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ معاشرے کے فعال فرد کے طور پر آگے بڑھیں گے، انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کو جہاں مثبت رہنمائی کی ضرورت ہے وہیں اُن کی صلاحیتوں کو مثبت رُخ دینے کے لیے کھیلوں کی بھی ضرورت ہے، اور ایک مثل مشہور ہے کہ جس قوم کے میدان آباد ہوتے ہیں اس کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں اس لیے ہمیں آج کھیلوں کو رواج دے کر اپنے میدان آباد کرنا ہوں گے تا کہ ہم اپنے طلبہ و طالبات کو صحت مند بنا سکیں۔

متعلقہ عنوان :