ْ سرینگر:بھارتی فوجیوں کے چھروں کا نشانہ بن کر نابینا ہونے والی انشا مشتاق نے میٹرک پاس کرلیا

میری قسمت میں جو تھا وہی ہوا، لیکن میرے ارادے کمزور نہ تھے، میں پڑھنا چاہتی تھی، میرے والدین اور لوگوں نے حوصلہ دیا ، آج میں بہت خوش ہوں، میں چاہتی ہوں نوجوان تعلیم کا سفر کسی بھی قیمت پر جاری رکھیں، متوسط کشمیری خاندان سے تعلق رکھنے والی انشا مشتاق کا عزم وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی، سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ اور حریت رہنما میرواعظ عمرفاروق نے انشا کی کامیابی پر انھیں مبارکباد ، حریت رہنما شبیر احمد شاہ نے انھیں اپنی تیسری بیٹی کے طور پر گود لیا ، حوصلہ افزائی کی

بدھ 10 جنوری 2018 22:48

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 جنوری2018ء) مقبوضہ کشمیر کے متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والی انشا مشتاق کا گھر دو سال پہلے ماتم کدہ تھا۔ انشا کی آنکھوں میں عوامی احتجاج کے دوران اٴْس وقت مہلک چھرے لگے، جب فورسز نے مظاہرین کے خلاف چھروں کی فائرنگ کی۔سرینگر سے دلی تک کئی ماہ کے علاج کے بعد معلوم ہوا کہ معصوم انشا اب کبھی دیکھ نہیں پائے گی۔

وہ عمر بھر کے لیے نابینا ہوگئی۔ لیکن انشا نے فیصلہ کیا کہ وہ تعلیم کا سفر جاری رکھیں گی۔ آج انشا نے دسویں جماعت کے امتحان میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔انشائ کہتی ہیں : 'میری قسمت میں جو تھا وہی ہوا، لیکن میرے ارادے کمزور نہ تھے۔ میں پڑھنا چاہتی تھی، میرے والدین اور لوگوں نے حوصلہ دیا اور آج میں بہت خوش ہوں۔

(جاری ہے)

میں چاہتی ہوں کہ نوجوان تعلیم کا سفر کسی بھی قیمت پر جاری رکھیں۔

‘وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی، سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ اور حریت رہنما میرواعظ عمرفاروق نے انشا کی کامیابی پر انھیں مبارکباد دی ہے۔ ایک اور حریت رہنما شبیر احمد شاہ نے انھیں اپنی تیسری بیٹی کے طور پر گود لیا ہے، اور ان کی کافی حوصلہ افزائی کی ہے۔انشا کے والد مشتاق احمد کہتے ہیں: 'جب انشا نے کہا کہ وہ پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہیں، تو ہم پریشان ہوگئے۔

بعد میں کم از کم چار اساتذہ کی مدد سے اٴْس نے امتحان کی تیاری کی اور آج ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔‘2016 میں عوامی مزاحمت کو دبانے کے لیے فورسز نے چھروں والی شکاری بندوق کا بے تحاشہ استعمال کیا جس کی وجہ سے سولہ افراد مارے گئے اور سات ہزار زخمی ہوئے تھے۔زخمیوں میں سے اکیس دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے، انشا مشتاق ان میں سے ایک ہیں۔

کل ملا کر اب تک پندہ ہزار افراد فورسز کی کاروائیوں میں زخمی ہوئے ہیں جب کہ کم از کم ایک سو چالیس افراد مارے گئے ہیں، تاہم چھروں کے متاثرین عالمی توجہ کا مرکز بنے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ چھروں کی بندوق پر پابندی عائد کی جائے۔ تاہم اس بندوق کا استعمال آج بھی ہوتا ہے جب مظاہرے بے قابو ہو جاتے ہیں۔‘ ۔

متعلقہ عنوان :