سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کی شق 203 میں ترامیم کوکالعدم قرار دیدیا،آئین کے آرٹیکل 62 اور63پرپورا نہ اترنے والاشخص کسی جماعت کاسربراہ نہیں بن سکتا ،

سابق وزیراعظم 28 جولائی2017ء سے ہی نااہل تصورہوں گے،اس دوران ان کی جانب سے اٹھائے گئے تمام اقدامات بھی کالعد م ہوں گے،عدالت عظمیٰ،محمد نوازشریف کا نام بطور صدرمسلم لیگ ن ہٹایا جائے،الیکشن کمیشن کو ہدایت

بدھ 21 فروری 2018 23:05

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 فروری2018ء) سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کی شق 203 میں ترامیم کوکالعدم قراردیتے ہوئے ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور63پرپورا نہ اترنے والاشخص کسی جماعت کاسربراہ نہیں بن سکتا ، عدالت نے یہ بھی قراردیا کہ سابق وزیراعظم قبل ازیں نااہل قراردینے کی تاریخ28 جولائی2017ء سے ہی نااہل تصورہوں گے اوراس دوران ان کی جانب سے اٹھائے گئے تمام اقدامات بھی کالعد م ہوں گے یاد رہے کہ پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف ، ایم کیوایم سمیت پندرہ سے زائد سیاسی جماعتوں اورافراد نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017ء کوعدالت میں چیلنج کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ عدالت کی جانب سے نااہل قراردیا گیا کوئی بھی فرد کسی سیاسی پارٹی کاسربراہ نہیں بن سکتا اس لئے اس ایکٹ کی شق 203 میں کی گئی ترمیم کوکالعدم قراردیا جائے ، کیس کی کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں جسٹس عمرعطابندیال اورجسٹس اعجازالحسن پرمشتمل تین رکنی بنچ نے کی ،مسلسل دوہفتوں سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران تمام درخواست گزاروں کے وکلاء نے عدالت کے روبرو اپنے دلائل دے کر اپنااپنا موقف پیش کیا،بدھ کوچیف جسٹس نے بنچ کے دیگرارکان کے ہمراہ فیصلہ سناتے ہوئے قراردیا کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ میں سیاسی جماعت کے سربراہ کووہ اختیارات دئیے گئے ہیں جن کابراہ راست تعلق پارلیمانی امورکی انجام دہی سے ہے جبکہ آئین کے تحت کوئی بھی ایسافرد پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا جواہلیت نہ رکھتا ہوں یاان کونااہل قراردیا گیا ہو، چونکہ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نااہل قراردیئے جاچکے ہیں اس لئے وہ پارٹی کے سربراہ نہیں رہ سکتے ان کی نااہلی 28 جولائی 2017 ء سے شروع ہوگی اوراسی دوران ان کے اٹھائے گئے تمام اقدامات کالعدم قراردیئے جاتے ہیں ، چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا کہ طاقت کااصل سرچشمہ اللہ تعالٰی ہیں جس کااستعمال عوام اپنی مقررہ حدود میں جبکہ ریاست عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کارلاتی ہے جہاں مذہب کی روشنی میں لوگوں کو جمہوری اصولوں کے تحت مکمل طورپرآزادی ،مساوات،تحمل و بردباری اورسماجی انصاف حاصل ہو، لوگوں کو بنیادی حقوق دستیاب اورقانون کے سامنے سب برابرہوں، یکساں سیاسی و معاشی مواقع اورانصاف ملتاہو ،اظہاررائے کی آزادی ہو ،مذہب اورعقیدے کی آزادی ہو،قانون کااحترام اورعوام کی بھلائی ہو، عدالتی فیصلے میں مزید کہاگیاہے کہ آئین کاآرٹیکل 17تمام شہریوں کویکساں بنیادی حقوق فراہم کرتاہے آئین کے تحت ایک جانب عوامی نمائندوں پرمشتمل منتخب پارلیمنٹ اوردوسری طرف قانون کی حکمرانی ہی جمہوریت کی بنیاد ہیں آئین کا آرٹیکل 62 اورآرٹیکل 63-A پاریمانی امورچلانے کیلئے ایک ایسا مکمل فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس کے تحت ایک دیانت دار ،صادق،اعلی ساکھ اوروقار کاحامل فرد ہی انہیں چلائے گایہی شرائط آئین کی مقررکردہ ہیں جن میں پارلیمنٹ کے رکن کی اہلیت / نااہلیت کاتعین کیا گیا ہے ،عدالتی فیصلہ میں مزیدکہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات یااس میں شرکت کے حوالے سے تمام قوانین آئین کے آرٹیکل 17 کے تناطرمیں روبہ عمل ہیں اورآرٹیکل 63-Aکے تحت پارلیمنٹ میں ارکان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کسی بھی جماعت کے سربراہ کا کردار مرکزی ہوتاہے جس کے مطابق پارٹی کے سربراہ کوہرطرح کی اہلیت کاحامل اورنااہلیت سے مبرا ہوناچاہیے، فیصلہ کے مطابق انتخابی اصلاحات ایکٹ2017ء کے باعث پارٹی سربراہ کووہ اختیارات حاصل ہوگئے ہیں جس کابراہ راست تعلق پارلیمانی انتخابات کے اموراورپارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کی موجودگی سے ہوتاہے، اس لئے عدالت انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 ء کے حوالے سے دائر تمام درخواستوں کومنظورکرتے ہوئے اس ایکٹ کی شق203,232 کوآرٹیکل 62 اور63A کے تناظرمیں پڑھا جائے جس کے تحت کوئی بھی ایسا فردجو اہلیت نہ رکھتاہوں یا نااہل قراردیا گیا ہو پارٹی سربراہ نہیں بن سکتااوریہ پابندی متعلقہ فرد کی نااہلی کی تاریخ سے تصور ہوگی ، اس طرح اسی مدت کے دوران بطورپارٹی صدر ان کے اٹھائے گئے تمام اقدامات بھی کالعدم دئیے جاتے ہیں، الیکشن کمیشن کوہدایت کی کہ میاں محمد نوازشریف کا نام بطور صدرمسلم لیگ ن ہٹایا جائے۔