صدر ٹرمپ کو شام میں رکنے پر راضی کر لیا ہے، فرانسیسی صدر

روس سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہشمند ہیں تاکہ شام کے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈا جا سکے ،اس سلسلے میں اگلے ماہ روس کے دورے پر جائوںگا، ایمینوئل میخواںکا انٹرویو

پیر 16 اپریل 2018 18:35

پیرس(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 اپریل2018ء) فرانس کے صدر ایمینوئل میخواں نے کہا ہے کہ انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو راضی کر لیا ہے کہ وہ شام سے اپنی فوج کو وطن واپس نہ بلائیں اور انھیں شام میں 'طویل مدت' کے لیے تعینات کریں۔ٹی وی انٹرویو میں فرانس کے صدر نے مزید کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کو کہا ہے کہ شام پر حملوں کی تعداد محدود رکھیں۔

صدر میخواں نے کہا کہ وہ بشمول روس تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت کرنے کے خواہشمند ہیں تاکہ شام کے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈا جا سکے اور اس سلسلے میں وہ اگلے ماہ روس کے دورے پر جائیں گے۔فرانسیسی صدر نے ملک کے ٹی وی چینل بی ایف ایم ٹی وی کو براہ راست انٹرویو دیا جو کہ تقریبا تین گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران یہ انٹرویو ٹوئٹر پر بھی سب سے مقبول ٹرینڈز میں سے ایک تھا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ سنیچر کو امریکہ نے اپنے اتحادی فرانس اور برطانیہ کے ساتھ شامی حکومت کے دوما پر مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں ٹوماہاک میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔میخواں کے بیان کے بعد وائٹ ہاس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا کہ 'امریکی مشن میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صدر اس بارے میں واضح ہیں کہ امریکہ جتنا جلد ممکن ہو وہاں سے نکل آئے۔تاہم انھوں نے کہا کہ امریکہ دولت اسلامیہ کو مکمل طور پر ختم کر دینے کا پابند ہے تاکہ وہ واپسی نہ کرسکے۔

جمعے کی شام حملے کے متعلق قوم سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے زور دے کر کہا تھا کہ 'امریکہ کسی بھی صورت شام میں غیر معینہ مدت تک رہنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔امریکہ کے تقریبا دو ہزار زمینی فوجی مشرقی شام میں ہیں جو کرد اتحاد اور سیرین ڈیموکریٹک فورسز نامی عرب ملیشیا کی حمایت کر رہا ہے۔ادھر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی خود مختار تنظیم او پی ڈبلیو سی کے نمائندے ملک کے دارالحکومت شام میں موجود ہیں اور وہ دوما میں ہونے والی مبینہ کیمیائی حملوں کی تحقیق کریں گے۔

توقع تھی کہ تحقیق کار ہفتے یا اتوار کو دوما روانہ ہوں گے لیکن اس بارے میں ابھی تک کوئی مزید معلومات نہیں آئی ہیں۔روس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دوما میں کسی قسم کے کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے کوئی ثبوت نہیں ہیں اور یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ تفتیش کاروں کے جواب دینے سے قبل حملے کیوں کیے گئے۔روس نے برطانیہ پر الزام لگایا ہے کہ دوما میں کیے جانے والے حملہ ان کی جانب سے تھا۔

ادھر تفتیش کاروں کی تنظیم او پی ڈبلیو سی نہ یہ طے کرے گی اور نہ ہی اس بارے میں کوئی اعلان کرے گی کہ مبینہ کیمیائی حملے کس نے کیے۔دوسری جانب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے جانب سے شام پر حملے کے حوالے سے روس نے کہا ہے کہ شام پر مزید میزائل حملوں سے بین الاقوامی تعلقات میں افراتفری کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔روسی صدر ولادی میر پوتن نے یہ بات ایرانی صدر حسن روحانی سے فون پر گفتگو کے دوران کہی۔

ایران اور روس کے صدور کا یہ بھی ماننا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے شام پر میزائل حملے سے شام میں جاری تنازع کے سیاسی حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔خیال رہے کہ سنیچر کی رات امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک برطانیہ اور فرانس نے شام کے علاقے دوما میں کیے جانے والے مبینہ کیمیائی حملے کے جواب میں تین مقامات پر میزائلوں سے حملہ کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر کیے جانے والے اس حملے کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'گذشتہ رات بے عیب سٹرائیک کی۔ فرانس اور برطانیہ کا شکریہ ان کی دانشمندی اور ان کی اچھی فوجی طاقت کی۔ اس سے بہتر نتائج نہیں آ سکتے تھے۔ مشن مکمل ہو گیا۔'دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے اتوار کو کہا ہے کہ امریکہ اس وقت تک اپنی افواج شام سے نہیں نکالے گا جب تک اس کے مقاصد پورے نہیں ہو جاتے۔

نکی ہیلی نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے تین امریکی مقاصد بتائے جن میں ایک اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال امریکی مفاد کے لیے خطرہ نہ بنیں۔ان کے مطابق امریکہ کا دوسرا مقصد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دینا اور تیسرا مقصد یہ ہے کہ شام اس کے لیے ایک ایسی اچھی جگہ ہے جہاں سے وہ ایران پر نظر رکھ سکتا ہے۔نکی ہیلی نے کہا کہ امریکی فوجیوں کو واپس بلانا ہمارا مقصد ہے لیکن ہم تب تک شام نہیں چھوڑیں گے جب تک ہم ان چیزوں کو مکمل نہیں کر لیتے۔

اس سے قبل اتوار ہی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شامی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر شام نے اپنے شہریوں پر مزید کیمیائی حملے کیے تو امریکہ اس پر دوبارہ حملہ کرنے کے لیے 'پوری طرح تیار ہی'۔ادھر شامی صدر بشار الاسد نے روسی ماہرین قانون کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک پر مغربی ممالک کی جانے سے میزائل حملہ جارحیت تھی۔صدر بشار الاسد کے دفتر نے ان کے حوالے سے کہا ہے کہ شام کے خلاف سہ ملکی جارحیت کے ساتھ ساتھ غلط معلومات کی مہم چلائی جا رہی ہے۔

متعلقہ عنوان :