سندھ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جانے کی شرح 50 فیصد سے بھی کم ہے، ماہرین

جمعرات 26 اپریل 2018 20:44

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 اپریل2018ء) پاکستان میں مفت حفاظتی ٹیکے ای پی آئی پروگرام کے تحت لگائے جاتے ہیں جو 10 خطرناک بیماریوں کے خلاف ہوتے ہیں اس کے باوجود سندھ میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جانے کی شرح 50 فیصد سے بھی کم ہے۔ان خیالات کا اظہار پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے حکام نے حفاظتی ٹیکہ جات کے عالمی ہفتے کی مناسبت سے منعقدہ پریس بریفنگ سے خطاب کے دوران کیا۔

اس آگاہی مہم کو جی ایس کے پاکستان کا تعاون حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کم ترین شرح کی وجہ والدین میں آگہی کا فقدان ہے ہم اس شرح کو 90 فیصد تک پہنچا سکتے ہیں اور خطرناک بیماریوں کو ختم کرکے قیمتی زندگیوں کو بچا سکتے ہیں۔ ویکسینز نہ صرف بچوں کو محفوظ رکھتی ہے بلکہ بچوں میں قوت مدافعت بھی پیدا کرتی ہے اور اینٹی بائیوٹکس پر انحصارکم کرتی ہیں۔

(جاری ہے)

جنرل سیکریٹری پی پی اے سندھ ڈاکٹر خالد شفیع نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بیماریوں، معذوریوں اور اموات سے بچانے کے لیے حفاظتی ٹیکوں اور ویکسینیشن پروگرام، امیونائزیشن سے فائدہ اٹھائیں، انہوں نے کہا کہ دس خطرناک بیماریوں میں تپ دق، چیچک، پولیو، نمونیا،خسرہ، خناق،تشنج،کالی کھانسی، روبیلا(جرمن خسرہ)،ممپس(گلے کا ایک مرض)، ہیپاٹائٹس بی اور ہیموفیلس انفلوئینزا ٹائپ بی شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ ان امراض کو کنٹرول کرنے کا موثر طریقہ ویکسین وٹیکہ جات نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ کم لاگت اور زیادہ موثر ہیں۔

بیماریوں سے ان تمام اموات کو حفاظتی ٹیکہ جات اور ویکسینیشن کے ذریعے روکا جاسکتاہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال 20 لاکھ سے 30 لاکھ زندگیوں کو حفاظتی ٹیکوں کے ذریعے بچایا جاتا ہے۔اسی طرح اب بھی دنیا بھر میں تقریباً 19 کروڑ اور 50 لاکھ بچے بنیادی ویکسین سے محروم ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی قابل تشویش ہے کہ اگر حفاظتی ٹیکوں سے امیونائزیشن کی بہتر شرح کو برقرار نہیں رکھا جاتا تو خدشہ ہے کہ یہ بیماریاں جن کو ویکسین سے روکا جاسکتا ہے دوبارہ پھیل سکتی ہیں۔

ویکسینز سے دنیا بھر میں سالانہ تقریباً30لاکھ اموات کو روکا جاتا ہے۔پی پی اے کے ٹریژرر ڈاکٹر ایم این لال نے کہا کہ یہ بات قابل ستائش ہے کہ حکومت نے روٹا وائرس ویکسین ای پی آئی پروگرام میں شامل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حفاظتی ٹیکہ جات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ ہسپتال میں داخل ہونے والا ہر تین میں سے ایک نومولود بچہ روٹا وائرس سے متاثر ہوتا ہے۔

اسی طرح پانچ سال تک پہنچنے والا ہر بچہ روٹا وائرس سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔دماغی سوزش،نموکوکوکل سے چند ماہ کے بچوں سے لے کر دو سال کی عمر تک چھوٹے بچوں کے متاثر ہونے کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔ ڈائریا اور نمونیا نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بچوں کی اموات کے دو بڑے اسباب ہیں۔ ویکسینز ان بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔چیئرمین پی پی اے کراچی چیپٹر ڈاکٹر جمیل اختر نے ویکسی نیشن کی ضرورت پر زور دیا ان کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن اینٹی بائیوٹیکس ادویات کے استعمال میں کمی کا باعث بنتی ہے اور یہ اینٹی بائیوٹیکس کے خلاف پیدا ہونے والی مدافعت کا بہترین ذریعہ ہے۔

ویکسینز اینٹی باڈیز کو استعمال میں لاکر بیماری سے مقابلہ کرتی ہیں اور مریض کو بیماری سے تحفظ دیتی ہیں۔ یہ ہمیں بیماری سے محفوظ رکھ کر ہمارے جسم کو مستقبل میں بیماری کی مدافعت کے قابل بنادیتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویکسینز سے ہر سال دنیا بھر میں 60 لاکھ لوگوں کو اموات سے بچایا جاتا ہے۔ یہ انتہائی باکفایت طریقہ علاج ہے جو خطرناک بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ تپ دق، چیچک، پولیو، نمونیا،خسرہ، خناق،تشنج،کالی کھانسی، روبیلا(جرمن خسرہ)،ممپس(گلے کا ایک مرض)، ہیپاٹائٹس بی اور ہیموفیلس انفلوئینزا ٹائپ بی سے ہونے والی اموات کو روکتی ہیں۔اگر ویکسینیشن اور حفاظتی ٹیکہ جات نہ لگوائے جائیں تو کئی قابل علاج بیماریاں وبا کی صورت میں اختیار کر سکتی ہیں جن سے بیماری ، معذوری اور اموات تک ہو سکتی ہیں اور یہ دوبارہ پھیل سکتی ہیں۔

جنرل سیکریٹری پی پی اے سینٹرل ڈاکٹر مشتاق میمن نے کہا کہ یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان میں 1978میں حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام پاکستان ایکسپنڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن(ای پی آئی) شروع کیا گیا جو آج تک جاری ہے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں حفاظتی ٹیکہ جات لگوائیں۔ان ٹیکوں کے ذریعے نومولود بچوں سے لے کر 11 ماہ تک کے بچوں کو دس خطرناک بیماریوں سے محفوظ رکھا جاتاہے۔انہوں نے کہا کہ والدین بچوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے حفاظتی ٹیکوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اس طرح ان کے بچے بیماریوں، معذریوں اور اموات کے خدشات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ اس پیغام کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان کو ان خطرناک بیماریوں سے بچائیں۔