طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ ،ْ

فیصلے کے روز طلال چوہدری کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت عدالت نے پیمرا کو دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا، عدالت اپنے قانون کے تحت فیصلہ کرے گی ،ْ جسٹس گلزاز احمد پڑھے لکھے شخص پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، طلال چوہدری نے کبھی معافی نہیں مانگی، ان کا مقدمہ عدالتی تحمل ہے ،ْریمارکس

بدھ 11 جولائی 2018 17:54

طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ ،ْ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جولائی2018ء) سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا جبکہ فیصلے کے دن طلال چوہدری کو عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت، اس دوران طلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ اور وکیل استغاثہ ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمن عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر کامران مرتضیٰ نے دلائل دیے کہ یکم فروری 2018 کو رجسٹرار سپریم نے چیف جسٹس کو نوٹ پٹ کیا جس میں کہا گیا کہ طلال چوہدری کا کلپ توہین آمیز اور عدالتی کارروائی میں مداخلت ہے، آرٹیکل 204 کے تحت ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یکم فروری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکم بھی دیا اور طلال چوہدری کو نوٹس بھی اسی دن جاری ہوا، جس مواد پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا، اس میں طلال چوہدری نے کہا کہ عدالتی مینڈیٹ کی توہین سب سے بڑی توہین ہے۔

اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے 2 تقاریر پر توہین عدالت کی کاروائی شروع کی، آپ کس دستاویزات کی بات کر رہے ہیں ہمیں معلوم نہیں یہ دستاویز کہاں سے آئیں، جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ وہ دستاویز ہیں جو رجسٹرار سپریم کورٹ نے نوٹ چیف جسٹس کو پٴْٹ کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس کے حکم کے بعد 22 تقاریر جمع کی گئیں، صرف تین 3 منٹس کی 2 تقاریر پر کارروائی شروع کی گئی۔

اس دوران وکیل طلال چوہدری نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور توہین عدالت کیس میں سزا کا سامنا کرنے والے نہال ہاشمی کا ذکر کیا اور کہا کہ توہین عدالت کی سزا کاٹنے کے بعد نہال ہاشمی نے جو الفاظ استعمال کیے وہ انتہائی غیر مناسب تھے تاہم اس کے باوجود عدالت نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ اس وقت عدالت میں ہم ثبوت کی بات کر رہے ہیں یہ تذکرہ آپ بعد میں کر لیجیے گا۔

دوران سماعت وکیل کامران مرتضیٰ نے مزید بتایا کہ توہین عدالت کے نوٹس میں وجوہات کا تعین نہیں کیا گیا، 117 ٹی وی چینلز میں سے صرف نیو ٹی وی اور روز ٹی وی کی مانیٹرنگ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ دونوں ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی تقریر کا فوری نوٹس پیمرا نے بھی نہیں لیا اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت نے پیمرا کو دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا، عدالت اپنے قانون کے تحت فیصلہ کرے گی۔

اس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر آپ اس کیس میں سزا دیں گے تو یہ کیس ساری عمر نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جائیگا جبکہ اگر آپ اس کیس میں بری کریں گے تو یہ ہمیشہ نظیر کے طور پر پیش ہوگا۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے اس میں کڑیاں ملائی جاتی ہیں، ایک کڑی کے نہ ہونے سے شک کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے، شک کی موجودگی میں سزا ہونا انصاف کے برعکس ہے، اگر سزا ہوتی ہے تو اس کے دو حصے ہوں گے، پہلا یہ کہ میرے موکل کو جیل ہوسکتی ہے جبکہ دوسرا یہ کہ وہ پانچ سال کیلئے الیکشن سے نااہل ہو سکتے ہیں۔

طلال چوہدری کے وکیل نے کہا کہ 90 فیصد فوجداری مقدمات میں ناقص شواہد پر عدالت بریت دیتی ہے اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا آپ ان 10 فیصد میں آتے ہیں، جن کو سزا ہوتی ہی جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں کہوں گا کہ عدالت شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرے۔اس دوران وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ فیصل رضا عابدی نے عدالت کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا، ایک حضرت نے بھی عدلیہ کے بارے میں ریمارکس دیے جبکہ فیض آباد دھرنے کے مقرر کی تقریریں سن کر انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے، اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ پڑھے لکھے شخص پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، طلال چوہدری نے کبھی معافی نہیں مانگی، ان کا مقدمہ عدالتی تحمل ہے۔دوران سماعت وکیل استغاثہ نے کہا کہ توہین عدالت کے مواد پر کبھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا ،ْ طلال چوہدری نے بیانات میں عدلیہ کو متنازع بنایا جبکہ طلال چوہدری نے اپنے بیانات سے کبھی انکار نہیں کیا۔

بعد ازاں عدالت نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائیگا اس موقع پر طلال چوہدری کے وکیل نے فیصلے کو انتخابات کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فیصلے کی تاریخ نہیں دی ہے تاہم کیس کے فیصلے کے موقع پر طلال چوہدری کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی