پانی زندگی ہے جوہرانسان کی بنیادی ضرورت ہے،میں اپنے ہاتھوں سے اپنی قوم کے بچوں کواس حق سے محروم نہیں کرسکتا 45 سال سے کسی نے اس معاملے پرغور نہیں کیا لیکن ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا واٹر سمپوزیم کی اختتامی تقریب سے خطاب

اتوار 21 اکتوبر 2018 02:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اکتوبر2018ء) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ پانی زندگی ہے جوہرانسان کی بنیادی ضرورت ہے اورمیں اپنے ہاتھوں سے اپنی قوم کے بچوں کواس حق سے محروم نہیں کرسکتا پینتالیس سال سے کسی سے اس معاملے پرغور نہیں کیا لیکن ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہفتہ کویہاں دوروزہ واٹر سمپوزیم کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ میں نے اس اہم ترین موقع میں شرکت کیلئے موجودہ حکومتی عہدیداروں ، منسٹرز اور مشیروں کو بھی دعوت نامے بھیجے تھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے چند ایک لوگوں کے علاوہ یہاں کوئی نہیں آیا حالانکہ آج اور کل یہاں جتنی باتیں ہوئی ہیں یہ مجھ سے زیادہ حکومتی لوگوں کے سننے کیلئے تھیں ، کاش وہ آتے اور نوٹس لے کراس پر عمل کی کوشش کرتے کہ کس طرح اس مسئلے کا حل نکالا جائے اور کیسے پانی کے بحران کو ملک سے ختم کیا جائے ، لیکن حکومت کی جانب سے لوگوں نے آنے کی زحمت نہیں کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس آف پاکستان نے واٹر سمپوزیم کے ختتامی خطاب میں کہا کہ انہوں نے پاکستان کی موجودہ حکومت کے عہدیداروں ، منسٹرز اور مشیروں کو بھی دعوت نامے بھیجے تھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے چند حکومتی لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں آیا ، چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں جسٹس اعجاز الاحسن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی معاملے پر انہوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے اب بھی دے رہے ہیں ، میں نے اعجاز الاحسن کو مستعار لیا ہو اہوں ، ایک روز میںنے انہیں فون کیا تو ان کی اہلیہ نے فون اٹھایا میں نے ان سے کہا کہ مجھے پانی کے مسائل کے پیش نظر آپ کے شوہر کی خدمات چاہیں ،ان کی اہلیہ نے کہا کہ وہ خود پاکستان سے بہت محبت کرتی ہیں اورپاکستان کے لیے جو بھی کام ہو، وہ حاضر ہیں، پاکستان ہماری ماں ہے ، چیف جسٹس نے جسٹس عمرعطا بندیال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بھی ملک کے لئے بڑی خدمات ہیں اور وہ جب بھی کوئی فیصلہ لکھتے ہیںتو اکثر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہم سے انصاف والا فیصلہ کرانا۔

چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں اٹارنی جنرل اور انکی ٹیم کا بھی شکریہ ادا کیا اورکراچی میں صفائی کی صورتحال بہترکرنے اورپانی کا معاملہ حل کرنے کے سلسلے میں جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم کی خدمات کو سراہا ، چیف جسٹس نے بیرسٹر لطیف کھوسہ اور سابق وزیر اعلی ٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بھی پانی کے معاملہ پراپنی ذات اور مصروفیت سے بالا تر ہو کرقومی جذبے کیساتھ کام کیا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے خطاب کے آخر میں گزشتہ روز کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کل جب سیشن ختم ہو ا تو میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو ٹیبل پر پڑا آدھا گلاس پانی پی رہی تھی میں نے جب ان سے پوچھا تو انہوں کہا کہ یہ پانی ضائع نہیں ہونا چاہیے اس لیے یہ پانی پی رہی ہوں ، چیف جسٹس نے ہال میں موجود اس خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ سے سبق سیکھا ہے اور اس پرآج سے ہی عمل شروع کر رہا ہوں میرے ٹیبل میں پانی کی بوتل میں آدھی بوتل پانی رہ گیا ہے تو میں پانی کی بوتل پھینکنے کے بجائے اسے اپنے استعمال کے لیے رکھ رہا ہوں اور ہال میں بیٹھے لوگوں کی اجازت سے اس کو اپنے کوٹ کے جیب میں رکھتا ہو ں جس کو میں استعمال میںلائوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب میں کراچی میں تھا تو ہمیں استو نامی صاحب نے فلم دکھائی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ایک نہر میں پانی آ رہا ہے جس میں انڈسٹری کا فضلہ ، جانوروں کا فضلہ ، انسانی گندگی اور دیگر کیمیکل شامل ہورہے ہیں اور دور جا کر ایک واٹر پلانٹ لگا تھا جہا ں سے کراچی کے لوگ پانی پیتے ہیں ، جس پر میں نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بلاکر وہ پانی ایک بوتل میں ڈال کر کہا کہ آدھی بوتل پانی آپ پیئں اور آدھی بوتل پانی میں پیتا ہوں تووزیر اعلیٰ سندھ نے کہا تھاکہ سر یہ تو مشکل ہے ،ہمیں وقت دیں حالات کو بہتر بنا نے کی کوشش کریں گے۔