پاکستانی کرکٹر با آسانی میچ فکسرز کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں:معروف کرکٹ مبصر کا دعوی

پاکستان کرکٹ بورڈ میں ایک بھی پروفیشنل اینٹی میچ فکسنگ اہلکار موجود نہیں:اعجاز باکھری

Zeeshan Mehtab ذیشان مہتاب ہفتہ 10 نومبر 2018 16:13

پاکستانی کرکٹر با آسانی میچ فکسرز کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں:معروف کرکٹ مبصر ..
لاہور(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔10نومبر2018ء) ملک کے معروف کرکٹ کے مبصرین میں سے ایک کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹرز دیگر ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کے پلیئرز کے برعکس زیادہ آسانی سے میچ فکسرز کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں ۔ ایک نجی ٹی وی کے لیے کام کرنے والے سپورٹس صحافی اعجاز وسیم باکھری کا کہنا تھا کہ 2010ءکے سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں محمد آصف ،محمد عامر اور سلمان بٹ کو سزا ہونے کے 8سال مکمل ہونے کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کو فکسنگ سے بچانے کےلئے کچھ نہیں کیا ہے ،پاکستان کرکٹ بورڈ نے میچ فکسنگ سے بچنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے ، بورڈ میں ایک بھی پروفیشنل اینٹی میچ فکسنگ اہلکار موجود نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ستمبر میں متحدہ عرب امارات میں کھیلے گئے ایشیاءکپ کے دوران بھارتی کھلاڑی اپنے ہوٹل کی لابی میں ایک بار بھی نظر نہیں آئے لیکن پاکستان کھلاڑی کسی سکیورٹی یا اجازت کے بغیر کھلے عام ریسٹو رنٹس اور شاپنگ مالز میں گھوم پھر رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا ،کسی بھی بکی کےلئے ان سے بات چیت کرنا بہت آسان تھاکیوں کہ کوئی سکیورٹی ان کے ساتھ نہیں تھی ۔

(جاری ہے)

2010ءمیں محمد عامر ، محمد آصف اور سلمان بٹ انگلینڈ کےخلاف لارڈز ٹیسٹ کے دوران سپاٹ فکسنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں،برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ نے خفیہ طور پر مکی مظہر مجید کاانٹر ویو کیا تھا جس میں انس نے یہ بتایا تھا کہ محمد عامر اور محمد آصف طے شدہ منصوبے کے تحت نو بالز کریں گے ، تینوں کرکٹرز کو برطانوی عدالت نے قید کی سزا سنائی تھی اور محمد عامر اپنی سزا پوری کرنے کے بعد اب کامیابی سے پاکستانی کرکٹ ٹیم میں واپسی کرچکے ہیں ۔

حال ہی میں ستمبر 2017 ءکے دوران پانچ پاکستانی کھلاڑیوں شرجیل خان، شاہزیب حسن، خالد لطیف، محمد عرفان اور ناصر جمشید کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستان سپر لیگ کے دوران سپاٹ فکسنگ کرنے پر پابندیوں اور جرمانے کی سزا سنائی تھی ۔ اعجاز وسیم کا مزید کہنا تھا کہ پی سی بی حکام نے پاکستان کرکٹ میں ثقافت کو ابھی تک تبدیل نہیں کیا ہے تاہم کھلاڑیوں کو میچ فکسنگ کے خطرات کو سمجھنے کے لئے شروع ہوتا ہے،انہوں نے کہا کہ میں اب بھی مجموعی طور پر ثقافت میں تبدیلی نہیں دیکھ رہاہوں لیکن انفرادی طور پر کھلاڑیوں نے خود ہی خیال رکھنا شروع کردیا ہے،گزشتہ 8 برسوں میں ہم نے 9کھلاڑیوں کو کھو دیا ہے،پی سی بی کے پول میں25کھلاڑی ہیں جو اب سمجھتے ہیں کہ وہ ٹیم میں اپنی جگہ اور اعتماد کھونا نہیں کرنا چاہتے ہیں تاہم جب بہت زیادہ پیسہ شامل ہو توکوئی بھی فکسرز کا شکار ہوسکتا ہے ،ابھی تو کھلاڑی خیال رکھ رہے ہیں تاہم ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی فکسرز کے جال میں پھنس جائے ۔

اعجاز وسیم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کیلئے مصیبت یہ ہے کہ انہیں مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے حالیہ الجزیرہ ٹی وی کی تحقیقاتی ٹیم کی تعریف کی جس نے مبینہ میچ فکسنگ پر ڈاکو منٹری بنائی تھی جس میں انگلش ٹیسٹ ٹیم کا بھی نام آرہا تھا۔انہوں نے کہا کہ الجزیرہ کے رپورٹر ڈیوڈ ہیریسن اور ان کی ٹیم نے بھارتی بکی انیل منورکا انٹر ویو کرکے بہت بڑا رسک لیا ہے،میچ فکسرز بہت طاقتور ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے دبئی، کراچی اور دیگر مقامات میں بڑا نیٹ ورک ہے۔

ان کا مزید کہناتھا کہ اگر میں بطور صحافی میں سٹنگ آپریشن کرنا چاہوں تو میرا آفس میرا ساتھ نہیں دیگا کیوں کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ میچ فکسرز کتنے طاقتور ہیں،ابھی کوئی نہیں جانتا کہ سابق پاکستانی کوچ باب وولمر کی موت کیسے ہوئی، بہت سے لوگوں کو اب بھی اس بات کا یقین ہے کہ انہیں میچ فکسرز نے مارا تھا ، ہمارے ملک کا عدالتی نظام اچھا نہیں ہے، گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں 26 صحافی ہلاک ہوئے ہیں، اس ملک میں لوگ 2، 3 یا 000 5 روپے کے لیے بھی قتل کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں ۔

یاد رہے کہ ورلڈ کپ 2007ءمیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو آئر لینڈ کے ہاتھوں اپ سیٹ شکست کے بعد قومی کوچ باب وولمر کی جمیکا میں اچانک موت ہوگئی تھی، جمیکا پولیس نے قتل کی تحقیقات شروع کی تھی تاہم نومبر 2007 ءمیں اس قتل کے مجرمانہ عمل یا قدرتی وجوہات کے ثبوت کی کمی کی وجہ سے اس کی موت پر ایک کھلا فیصلہ دیا گیا۔