گذشتہ دس سال کے دوران بلوچستان میں بہت زیادہ فنڈز دیئے گئے لیکن کل بلوچستان کے بعض سینیٹرز کہہ رہے ہیں کہ مسائل جوں کے توں ہیں،

ان کے لیڈر نے اپنے بھائی کو گورنر بنوایا ہوا تھا اور ساری صوبائی حکومت ان کے ماتحت کام کر رہی تھی، چیئرمین سینیٹ کمیٹی تشکیل دیں جو بلوچستان کے اربوں روپے کے فنڈز کی خورد برد اور معاشی دہشت گردی کی تحقیقات کرے، صوفیاء کی طرف بادشاہوں کو بھی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں ہوئی لیکن سابقہ دور میں اوپر ایک مافیا بیٹھا ہوا تھا جس نے بابا فرید گنج شکر جیسی ہستیوں کی زمینوں اور مزاروں کو بھی نہیں چھوڑا، دس ممالک کی تحقیقات میں 700 ارب روپے کی منی لانڈنگ سامنے آئی، جو لوگ اربوں روپے کھا کر بیٹھے ہیں، ان کا نام لینا ضروری ہے ورنہ پاکستان نہیں چلے گا، اپوزیشن کے احتساب اور ان کے اوپر مقدمات اور ان کی کرپشن کی بات نہ کریں تو ایوان ٹھیک طریقے سے چلتا رہے گا وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین کا سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی اس بارے میں مشورہ کیا جائے گا، چیئرمین سینیٹ

بدھ 14 نومبر 2018 21:57

گذشتہ دس سال کے دوران بلوچستان میں بہت زیادہ فنڈز دیئے گئے لیکن کل بلوچستان ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2018ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ گذشتہ دس سال کے دوران بلوچستان میں بہت زیادہ فنڈز دیئے گئے لیکن آج بلوچستان کے بعض سینیٹرز کہہ رہے ہیں کہ مسائل جوں کے توں ہیں، چیئرمین سینیٹ کمیٹی تشکیل دیں جو بلوچستان کے اربوں روپے کے فنڈز کی خورد برد اور معاشی دہشت گردی کی تحقیقات کرے، صوفیاء کی طرف بادشاہوں کو بھی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہیں ہوئی لیکن سابقہ دور میں مقدس ہستیوں اور مزاروں کی زمینوں کو بھی نہیں بخشا گیا، دس ممالک کی تحقیقات میں 700 ارب روپے کی منی لانڈنگ سامنے آئی، اپوزیشن کے احتساب اور ان کے اوپر مقدمات اور ان کی کرپشن کی بات نہ کریں تو ایوان ٹھیک طریقے سے چلتا رہے گا جبکہ چیئرمین سینیٹ نے وفاقی وزیر اطلاعات کی تجویز پر کہا کہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور سپیکر سے بھی اس بارے میں مشورہ کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

بدھ سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ گذشتہ دس سال کے دوران بلوچستان میں بے تحاشا فنڈز دیئے گئے لیکن آج بلوچستان کے بعض سینیٹرز کہہ رہے ہیں کہ مسائل جوں کے توں ہیں اور وہ درست کہہ رہے ہیں، ایسا اس لئے ہے کہ کیونکہ ماضی میں لوٹ مار کی جاتی رہی، جب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ اتنا پیسہ کہاں گیا تو یہ کھڑے ہو کر شور مچاتے ہیں، ان کے لیڈر نے اپنے بھائی کو گورنر بنوایا ہوا تھا اور ساری صوبائی حکومت ان کے ماتحت کام کر رہی تھی، آج یہ لوگ کس طرح بات کرتے ہیں۔

انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو تجویز دی کہ وہ کمیٹی تشکیل دیں جو بلوچستان کے اربوں روپے کے فنڈز کی خورد برد اور معاشی دہشت گردی کی تحقیقات کرے۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینٹ کا ماحول خراب نہ کریں اور ایوان کو چلنے دیں۔ جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ کیا آپ کا فرض نہیں بنتا کہ یہ آپ یہ دیکھیں کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہوا، آپ اپوزیشن کو احترام دینا چاہتے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن تھوڑا احترام ان لوگوں کو بھی دیں جو سردی میں ٹھٹھر کر مر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اوپر ایک مافیا بیٹھا ہوا تھا جس نے بابا فرید گنج شکر جیسی ہستیوں کی زمینوں اور مزاروں کو بھی نہیں چھوڑا، بابا گرونانک کو بھی نہیں بخشا، صوفیا کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت بادشاہوں کو بھی نہیں ہوئی لیکن ان لوگوں نے ان کو بھی نہیں بخشا، ہائوس کا تقدس اہم ہے لیکن ملک چلانا بھی ہمارا کام ہے، یہاں ماحول یہ ہے کہ کرپشن کی بات نہ کریں، ان کے احتساب اور کرپشن اور ان کے اوپر مقدمات کی بات نہ کریں تو یہ ایوان ٹھیک چلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دس ممالک کی تحقیقات میں سات سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ سامنے آئی ہے، دبئی میں تیسرے نمبر پر پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں، جو ملک کا یہ حال کر کے گئے ہیں ہمیں بھیک مانگنے کا طعنہ دیتے ہیں، اب صورتحال یہ ہے کہ ایک ایک روپیہ جمع کرنا پڑ رہا ہے، جو لوگ اربوں روپے کھا کر بیٹھے ہیں، ان کا نام لینا ضروری ہے ورنہ پاکستان نہیں چلے گا، اس ایوان میں کھڑے ہو کر منافرتیں نہیں پھیلانی چاہئیں، آج جو یہاں کھڑے ہو کر باتیں کرتے ہیں جب ان سے پوچھو کہ پیسہ کہاں گیا تو کہتے ہیں کہ یہ بات نہ پوچھو۔ چیئرمین سینیٹ نے فواد چوہدری کی تجویز پر کہا کہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی اس بارے میں مشورہ کیا جائے گا۔